امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان میں خصوصی عدالت کی جانب سے سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائے جانے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے۔
میتھیو ملر نے کہا" یہ پاکستان کی عدالتوں میں ایک قانونی معاملہ ہے۔ ہم سابق وزیراعظم کے خلاف اس مقدمے کو فالو کرتے آ رہے ہیں لیکن اس فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ہم متواتر کہتے آ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے اندر جمہوری اصولوں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر زور دیں گے جیسا کہ ہم باقی دنیا سے کہتے ہیں۔"
منگل کے روز اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں معمول کی پریس بریفنگ کے دوران، ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ پاکستان کے اندر حکومتی ادارے اور دیگر جو انتخابات سے پہلے ایک اہم کلیدی شخصیت کے پیچھے ہیں اور عمران خان کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کو نہیں لگتا کہ اس سے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا؟
میتھیو ملر نےکہا،’’سابق وزیراعظم کے خلاف مقدمہ چلنا ایک قانونی معاملہ ہے۔ اور ہم یہ معاملہ پاکستانی عدالتوں پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن ہم جو دیکھنا چاہیں گے وہ ایک ایسا جمہوری عمل ہے جس میں تمام جماعتوں کو شرکت کی اجازت ہو اور جمہوری اصولوں کا احترام ہو۔
انہوں نے اس پر زور دیا کہ ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی پوزیشن نہیں لیتے۔ ہم اس بارے میں کوئی موقف اختیار نہیں کرتے کہ کون سے امیدوار اقتدار کے لیے دوڑ میں ہیں۔ ہم غیر جانبدارانہ، شفاف انتخابی عمل چاہتے ہیں۔ لیکن جو قانونی معاملات ہیں، ان کا فیصلہ پاکستان کی عدالتوں کوکرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آزادانہ اور شفاف الیکشن دیکھنا چاہیں گے۔ اور ہم مانیٹر کرتے رہیں گے کہ اگلے آٹھ دس دنوں میں اس ضمن میں کس طرح آگے بڑھا جا رہا ہے۔
اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کی عدالت فیصلہ کرے تو آپ کہتے ہیں قانونی معاملہ ہے، اگر وینیزویلا میں عدالت فیصلہ کرے تو آپ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ ہے، اور وہاں کینگرو کورٹس ہیں۔ پاکستان کے اندر مقدمہ کی کارروائی کو خفیہ رکھا گیا ہے، عمران خان کے وکیل کو عدالت سے باہر بٹھایا گیا اور استغاثہ کی ٹیم سے ایک وکیل کو اٹھا کر عمران خان کا وکیل صفائی بنا دیا گیا۔ سو ایسی پراسیکیوشن بھی کینگرو کورٹ سے کم نہیں ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہے کہ وینیزویلا میں معاملہ سیاسی ہے اور پاکستان میں قانونی ہے؟
اس سوال کے جواب میں میتھیو ملر نے انہیں دو مختلف معاملات سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو مختلف صورتیں ہیں، ہم پاکستان کے لیگل پراسس کے بارے میں ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ وینیزویلا کی طرف دیکھیں تو وہاں مدورو حکومت کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے جہاں جمہوریت کے خلاف کریک ڈاون ہوتا ہے۔ اور اس کیس میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے وعدوں پر عمل میں ناکام رہے۔
عمران خان کے خلاف سائفر کیس
خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی ہے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان سزا کے خلاف اعلٰی عدلیہ سے رُجوع کر سکتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔
اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔ پی ٹی آئی کا مؤقف رہا ہے کہ سائفر بھیجنے کا مقصد عمران خان کی حکومت کو ہٹانا تھا۔
اس کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔
سابق وزیرِ اعظم کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟ کیا سائفر کیس کے علاوہ دیگر کیسز میں بھی عمران خان کو سزا ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے قانونی ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔
ماہرِ قانون اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس سزا کے خلاف ایپلٹ کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی آپشن موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان تحریری فیصلے کے 30 روز کے اندر اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پاس تین مواقع موجود ہیں۔ اول وہ ایپلٹ کورٹ میں دستاویزات کے ساتھ ثابت کریں کہ اُن کے خلاف یہ کیس ثابت نہیں ہوتا۔
تجزیہ کار اور کالم نویس مجہیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو سزا کی خبر ایک دِل دکھا دینے والی خبر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست بار بار اپنے رہنماؤں اور سیاست دانوں کو ڈستی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھ گئے۔ نواز شریف کو سزا ہوئی اور بعد میں وہ جلا وطن ہو گئے۔ اب عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
تجزیہ کار اور کالم نویس چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ یہ ایک افسوس ناک امر ہے۔ عمران خان کی سزا خلافِ توقع اور حقائق کے برعکس ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سزا عمران خان کو نہیں بلکہ اُنہیں دی گئی ہے۔
فورم