قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان تمام بڑے معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے اور کسی بھی وقت متحارب فریقوں کے درمیان معاہدہ ہو سکتا ہے۔
امرکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنما مذاکرات کے نویں دور میں مسلسل پانچویں روز گفت و شنید میں مصروف رہے۔ وائس آف امریکہ افغان سروس کے ایوب خاورین نے طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تنازع کا باعث بننے والے تمام معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔
نمائندے کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد رات کو افغانستان جا سکتے ہیں۔ تاکہ تازہ ترین پیش رفت پر کابل حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے سکیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے سے جب سوال کیا گیا کہ بڑے متنازع معاملات سے کیا مراد ہے، تو اُن کا کہنا تھا کہ اس سے مراد امریکہ اور اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا کا معاملہ، افغانستان کے موجودہ آئین کا مستقبل، طالبان کے آئندہ کے کسی سیٹ اپ میں کردار اور افغان صدارتی انتخابات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی طے ہے کہ طالبان افغانستان میں امریکہ کو نشانہ بنانے والی فورسز جیسے القاعدہ یا داعش کا ساتھ نہیں دیں گے، بلکہ انہیں قدم جمانے بھی نہیں دیں گے۔
اس پیش رفت پر وائس آف امریکہ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں افغان امور کے ماہرین، پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور سینئر صحافی طاہر خان نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
دونوں ماہرین نے دوحہ سے ملنے والی خبروں کی اپنے ذرائع کے حوالے سے بھی تصدیق کی کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔
رستم شاہ مہمند سے جب پوچھا گیا آیا افغان طالبان کی شوریٰ بھی عسکریت پسندوں کے سیاسی و سفارتی وفد کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ہر لمحہ با خبر ہے یا پھر کسی بھی ممکنہ معاہدے کو شوریٰ بھی منظور کرے گی تو یہ حتمی ہو گا؟ اس پر سابق سفیر کا کہنا تھا کہ افغان شوریٰ کو ہر لمحے کی خبر ہے اور ہر ایک اقدام ان کی منظوری و منشیٰ سے طے پا رہا ہے۔
طالبان چین، روس اور عالمی اداروں کو ضامن بنانا چاہتے ہیں
سابق سفیر رستم شاہ کے بقول طالبان چاہتے ہیں کہ جو بھی معاہدہ ہو اس کے لیے چین، روس جیسی علاقائی طاقتیں اور اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم جیسے ادارے ضمانت دیں۔
طاہر خان نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ امریکہ کی خواہش تھی کہ طالبان افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی مذمت کریں، مگر شوریٰ نے اپنے وفد کو کوئی مذمتی بیان دینے سے روک دیا تھا۔
بقول اُن کے، ’’القاعدہ اب بھی طالبان کو اپنا حلیف سمجھتا ہے۔ آگے چل کر طالبان کے لیے مسئلہ آئے گا کہ کس طرح القاعدہ کو قائل کریں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
گو کہ القاعدہ اب افغانستان میں پہلے کی طرح موجود نہیں ہے، جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی، بہرحال شوریٰ نے وفد کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے جیسے ان سے کہا گیا کہ وہ القاعدہ کی مذمت نہ کریں۔
طاہر خان کا مزید کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ طالبان چین، روس اور عالمی اداروں کو گارنٹر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن، اطلاعات یہ ہیں کہ کسی بھی ملک نے جن کو اس ضمن میں خط لکھے گئے ہیں، ابھی تک باضابطہ طور پر جواب نہیں دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، افغان طالبان اس بات پر بھی راضی ہیں کہ کابل میں صدارتی انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ معاہدے کے بعد صورت حال کو دیکھ لیا جائے گا۔