امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنی ڈرون کارروائیوں سے متعلق مزید شفافیت کو ظاہر کرنے کا عزم کرتے ہوئے اس بارے میں جائزہ پیش کرنے کا کہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی مشیر برائے انسداد دہشت گردی لیسا موناکو کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ "آئندہ چند ہفتوں میں" 2009ء سے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے جنگجو اور عام شہریوں کی تفصیلات اور دیگر انسداد دہشت گرد کارروائیوں کا جائزہ پیش کرے گی۔
خارجہ امور کی کونسل سے پیر کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "ہم جانتے ہیں کہ انتہائی شفافیت نہ صرف درست عمل ہے بلکہ یہ ہمارے اتحادیوں کے ساتھ وسیع شراکت داری اور انسداد دہشت گردی کے موجودہ اقدام کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔"
حکام کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں عراق، شام اور افغانستان میں ہونے والی ڈرون کارروائیوں کی تفصیلات شامل نہین ہوں گی کیونکہ ان تمام علاقوں میں "جنگی صورتحال" جاری ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈرون کارروائیوں کی معلومات جاری کرنا صدر براک اوباما کی شفافیت کی پالیسی کے مطابق ہے۔
"ہم دیکھتے ہیں کہ انتہا پسند تنظیمیں ہمارے انسداد دہشت گردی کے اقدام کے بارے میں ایسی داستان سناتی ہیں جو کہ بالکل بھی درست نہیں۔۔۔اعدادوشمار کی اشاعت اور مزید شفافیت سے ہم یہ واضح کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی کارروائیوں میں شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچنے کے پالیسی سے متعلق صرف زبانی جمع خرچ نہیں کرتے۔"
تاہم ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سات سالوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے اعدادوشمار سے ڈون حملوں سے متعلق کسی کی سوچ تبدیل کرنے میں شاید ہی کوئی کامیابی ہو۔
"لانگ وار جرنل" کے مدیر بل روگیو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "اس موقع پر مجھے شبہ ہے کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا۔ اس بارے میں موقف بہت سنگین ہے اور شفافیت سے اس پر کم ہی اثر ہوگا۔"
"لانگ وار جرنل" پاکستان اور یمن میں زیادہ تر ذرائع ابلاغ کی بنیاد پر دہشت گردوں اور عام شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے پر نظر رکھتا ہے۔
اس کے مطابق 2006ء سے پاکستان میں 389 ڈرون حملے ہوئے جن میں 2797 انتہا پسند یا ان کے ساتھی اور 158 عام شہری ہلاک ہوئے۔
یمن میں 2002ء سے 135 ڈرون کارروائیوں میں 657 جنگجو اور 105 عام شہری مارے گئے۔