رسائی کے لنکس

امریکہ پاکستان کو آٹھ نئے’ایف سولہ‘ طیارے فروخت کرے گا: رپورٹ


ایف سولہ لڑاکا طیارے (فائل فوٹو)
ایف سولہ لڑاکا طیارے (فائل فوٹو)

پاکستان کے فضائی بیڑے میں پہلے بھی ’ایف سولہ‘ طیارے شامل ہیں جب کہ اس کے علاوہ فرانسیسی میراج اور پاکستان اور چین کے اشتراک سے تیار کردہ ’جے ایف 17 تھنڈر‘ لڑاکا جہاز بھی اُس کی فضائیہ کے پاس ہیں۔

امریکہ کے ایک موقر اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کو آٹھ نئے’ایف سولہ‘ طیارے فروخت کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

اخبار کے مطابق یہ فیصلہ صدر براک اوباما کی پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے وائٹ ہاؤس میں جمعرات کو ہونے والی ملاقات سے قبل کیا گیا۔

تاہم خبر میں کہا گیا کہ یہ واضح نہیں کہ طیاروں کی اس فروخت کا اعلان وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے دوران ہی کیا جائے گا یا بعد میں۔

تاحال پاکستان یا امریکی حکومت کی طرف سے اس بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

البتہ پاکستانی قانون سازوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس سے دفاع کے شعبے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مزید وسعت آئے گی۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کی چیئرمین نذہت صادق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر امریکہ ایف سولہ طیارے فراہم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ ایک خوش آئند اقدام ہو گا۔

’’ابھی خبر سنی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ کیا یہ صحیح خبر ہے یا نہیں ۔۔۔ دیکھیے پاکستان معیشت کے اعتبار سے ایک مضبوط ملک بننے جا رہا ہے اور ایک مضبوط پاکستان کے لیے دفاع چاہیئے ہو گا تو اس کے لیے ایف سولہ طیارے اگر فراہم کیے جاتے ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ خوش آئند بات ہو گی کہ ہمارے دفاع کے لیے۔‘‘

پاکستان کے فضائی بیڑے میں پہلے بھی ’ایف سولہ‘ طیارے شامل ہیں جب کہ اس کے علاوہ فرانسیسی میراج اور پاکستان اور چین کے اشتراک سے تیار کردہ ’جے ایف 17 تھنڈر‘ لڑاکا جہاز بھی اُس کی فضائیہ کے پاس ہیں۔

دریں اثنا ’فیڈریشن آف امریکن سائنٹسس‘ نامی ایک معروف امریکی گروپ نے بدھ کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 110 سے 130 تک ہو گئی ہے۔ یہ گروپ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق معاملات پر نظر رکھتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چار سال پہلے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 90 سے 110 تک تھی۔ ان اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 2025 میں 220 سے 250 تک ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اسی رفتار سے جوہری ہتھیار بناتا رہا تو وہ امریکہ، روس، چین اور فرانس کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک بن جائے گا جس کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہوں گے کیوں کہ برطانیہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کر رہا ہے۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے حوالے سے خبریں اُن کے بقول محض قیاس آرائیوں پر ہی مبنی ہیں۔

’’میرا خیال ہے کہ یہ تو قیاس آرائی ہے کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا جو لوگ اس کام میں شامل ہیں وہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت کیا صورت حال ہو گی۔۔۔۔۔ دیکھیں لوگ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ پہلے سال اتنے بنے اور اگلے سال میں اتنے اور بن جائیں گے یہ تو قیاس آرائی والی بات ہے نا، ضروری تو نہیں ہے۔‘‘

یاد رہے کہ رواں سال اگست میں امریکہ کے دو تحقیقی اداروں ’کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ اور ’دی سٹمسن سینٹر‘ نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان ہر سال 20 جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے اور اگر اسی رفتار سے یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک دہائی میں پاکستان دنیا کا تسیرا بڑا ملک ہو گا جس کے پاس سب سے زیادہ ’نیوکلیئر بم‘ ہوں گے۔

پاکستان نے ان اطلاعات کو مسترد کیا تھا کہ وہ تیزی سے جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ایسے دعوے صریحاً بے بنیاد ہیں۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان کسی بھی طور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کا خواہشمند نہیں ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ امریکہ جانے والے پاکستانی وفد میں شامل سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے رواں ہفتے ہی صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان نے چھوٹے جوہری ہتھیار تیار کر لیے ہیں۔

تاہم واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا ایک ہی مقصد تھا اور اب بھی ہے اور وہ ہے بھارت کی جانب سے لاحق خطرات کو روکنا۔

بھارت نے مئی 1998 میں جوہری دھماکے کر کے اس صلاحیت کے حصول کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اُسی مہینے پاکستان نے بھی جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔

دونوں ممالک ان ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نا کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔

XS
SM
MD
LG