ایسے میں جب خطے میں تناؤ بڑھا ہوا ہے، امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیرمین، جنرل جوزف ڈنفرڈ ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔
ترکی، داعش کے شدت پسند گروہ کے خلاف امریکی قیادت میں لڑی جانے والی لڑائی میں ایک اہم اتحادی ہے۔ تاہم، ڈنفرڈ ترکی کا ایسے وقت دورہ کر رہے ہیں جب حالیہ دِنوں کے دوران شام میں کُردوں کی پیش قدمی کے معاملے پر ترکی ناخوش ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ڈنفرڈ کے دورے کے دوران داعش کے خلاف لڑائی ایجنڈے پر سرفہرست ہوگی۔
امریکہ ترکی کو، جس کی عراق اور شام کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، اس جہادی گروپ کے خلاف جاری لڑائی میں ایک کلیدی فریق خیال کرتا ہے۔ تاہم، سیاسی تجزیہ کار، سمیع ادیز، جن کا تعلق ترکی کے اخبار ’حریت‘ سے ہے، کہا ہے کہ ڈنفرڈ اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ترکی نیٹو کے ارکان سے زیادہ خوش نہیں ہے۔
ادیز کے الفاظ میں، ’ماضی میں مشکلات حائل رہی ہیں، اور اب بھی مشکلات ہیں۔ یہ حقیقت کہ شام میں امریکہ کُرد عناصر کے ساتھ ملا ہوا ہے، جس بات سے ترکی مطمئن نہیں‘۔
بقول اُن کے، ’تاہم، اِس مرحلے پر کہیں زیادہ تعاون دیکھا جا رہا ہے، جب کہ ایک یا دو برس قبل یہ معاملہ نہیں تھا‘۔
عوامی تحفظ کے دستے
امریکی فوج عوامی تحفظ کے دستو (وائی پی جی) کو فضائی امداد فراہم کر رہی ہے، جو شام میں کُرد گروپ پر مشتمل ملیشیا ہے، جو کہ داعش سے زمین پر نبردآزما انتہائی کامیاب فوج ہے۔ لیکن، ترکی شام میں کُرد گروپ کو کُرد باغی گروپ (پی کے کے) سے وابستہ دھڑا خیال کرتا ہے، جس سے ترک افواج لڑ رہے ہیں۔
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں شامی کرُد فوج کو سرحد کے ساتھ مزید علاقے پر کنٹرول جمانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ تاہم، اِس انتباہ کو نظرانداز کیا گیا ہے، جب کہ گذشتہ ہفتے شامی کردوں نے مزید پیش قدمی کی ہے۔
سنان الگن برسلز میں ’کارنیگی انسٹی ٹیوٹ‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترکی کے ہم منصب ڈنفرڈ پر دباؤ ڈالیں گے۔
الگن کے بقول، ’ترکی کو توقع ہے کہ امریکہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے اپنی حتی الوسع کوشش کرے گا، اور کرد دھڑوں کے علاقائی عزائم کو لگام دے گا۔ یہی جولائی میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کا حصہ ہے‘۔
اس سمجھوتے کے تحت، جس کے لیے کئی ماہ تک امریکہ نے تگ و دو کی، ترکی نے دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت والے اتحاد کی افواج کے لیے اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی‘۔
تاہم، تجزیہ کار، الگن نے خبردار کیا کہ اِن کوششوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
الگن کے بقول، اگر امریکہ ترکی کی تشویش کا خیال نہیں کیا، تو اعتماد کے لحاظ سے یہ بحرانی کیفیت پیدا کرنے کا اہم سبب بن سکتا ہے۔‘
اُن کے الفاظ میں، ’ایسے میں، بنیادی طور پر ترکی داعش کے خلاف لڑائی کے معاملے پر تعاون میں کمی لا سکتا ہے، کم از کم اُن علاقوں میں جہاں امریکہ کو زیادہ توجہ درکار ہے، یا جسے امریکہ اولیت دیتا ہے‘۔
ترکی کی تشویش میں اس لیے بھی بڑھی ہوئی ہے، چونکہ شام مین روسی فوجیں موجود ہیں۔ ترکی نے اس امکان کو مسترد کیا ہے کہ وہ شامی کرد افواج کے خلاف فوجی مداخلت کر سکتا ہے۔