امریکی افواج نے افغانستان سے اپنے انخلا کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ یکم مئی کو انخلا کے آغاز سے پہلے نہ صرف امریکی فوج نے اپنا ساز و سامان واپس بھجوانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، بلکہ ساتھ ہی مقامی ٹھیکیداروں سے اپنے معاہدے ختم کرنا شروع کر دئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، یہ اطلاع، جمعرات کے روز، امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے دی ہے۔
اس فوجی انخلا کو صدر جو بائیڈن 20 برسوں پر محیط امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا نام دیتے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت امریکہ کےٍ تقریباً 2500 اور اتحادی افواج کے تقریباً 7000 ہزار فوجی موجود ہیں۔
رواں مہینے کے وسط میں بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ انخلا کے حتمی مرحلے کا آغاز یکم مئی سے ہو گا، جو 11 ستمبر سے پہلے مکمل کر لیا جائے گا۔ گزشتہ سال فروری میں امریکی فوج نے افغانستان میں اپنی چھوٹی چھاؤنیوں کو بند کرنا شروع کر دیا تھا۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، امریکی عہدیدار نے اے پی کو بتایا کہ تب سے امریکی فوج اپنا ساز و سامان واپس بھیج رہی ہے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے اور دیکھ بھال کے کام کیلئے مقامی ٹھیکیداروں سے اپنے معاہدے ختم کر رہی ہے۔
گو کہ تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن، بقول عہدیدار، آئندہ چند ہفتوں تک وہاں سے فوج کے انخلا کا عمل شروع نہیں ہو گا تاوقتیکہ باقی چھاؤنیاں بھی بند کر دی جائیں۔
ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ انخلا کا عمل 11 ستمبر سے پہلے ہی مکمل ہو جائے۔ اس سال 11 ستمبر کو امریکہ پر القاعدہ کے حملے کو 20 برس گزر جائیں گے۔ یہی حملہ افغانستان پر امریکی چڑھائی کا موجب بنا تھا۔
بدھ کے روز جرمنی کی وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ کابل میں نیٹو کی قیادت والے ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے عسکری منصوبہ سازوں کے درمیان بات چیت چل رہی ہے کہ بین الاقوامی افواج کا ممکنہ انخلا جلد سے جلد 4 جولائی تک ہو جائے۔
محکمہ دفاع کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ افغانستان سے زیادہ تر فوجی سازو سامان فضائی راستے سے واپس بھیجا جائے گا، لیکن فوج پاکستان اور افغانستان کے شمال میں وسطی ایشیاکے زمینی راستے بھی استعمال کرے گی۔
ایسا سامان جو واپس امریکہ نہیں بھیجا جائے گا اور نہ ہی افغان نیشنل سیکیورٹی فورس کے حوالے کیا جائے گا، وہ ٹھیکیداروں کو بیچ دیا جائے گا جو اِسے مقامی مارکیٹ میں بیچیں گے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ آپ اس سامان کو بطور سکریپ بازاروں میں دیکھیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اسی دوران طالبان نے انہیں اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا وہ واپس جانے والے امریکی اور نیٹو فوجیوں پر حملے کریں گے یا نہیں؟
طالبان کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا تھا کہ یہ بات قبل از وقت ہے اور مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
گزشتہ سال سابق امریکی انتظامیہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں، امریکی افواج کی واپسی کی حتمی تاریخ یکم مئی طے کی گئی تھی۔ معاہدے کے تحت، طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس دوران امریکہ اور نیٹو افواج پر حملہ نہیں کریں گے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر یکم مئی کی مقررہ تاریخ سے امریکہ پیچھے ہٹا، تو پھر اس کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔