امریکہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ توہین مذہب کے ملزم کا دفاع کرنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن راشد رحمن کے قتل کی تحقیقات کو تیز کرے۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کو راشد رحمن کے قتل پر شدید افسوس ہے اور وہ اس ہلاکت کی تیزی سے تحقیقات مکمل کر کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستانی حکام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
گزشتہ بدھ کو ملتان میں نامعلوم مسلح افراد نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن راشد رحمن کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کرکے انھیں ہلاک کردیا تھا۔ وہاں موجود دیگر دو افراد اس واقعے میں زخمی ہوگئے تھے۔
راشد رحمن توہین مذہب کے ایک ملزم کے مقدمے کی پیروی بھی کر رہے تھے جس پر انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔
اس قتل کے خلاف نہ صرف وکلاء نے شدید احتجاج اور عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا بلکہ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی ملک کے مختلف شہروں میں صدائے احتجاج بلند کی گئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرپرسن کامران عارف کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ بیان راشد رحمن کے قتل کی تحقیقات میں مددگار ثابت ہوگا۔
"ظاہر ہے کہ پاکستان کی حکومت پر جتنا بھی دباؤ آئے اور حکومت سے جتنی بھی یقین دہانی مانگی جائے اچھی بات ہے۔ جس بھی طرف سے انسانی حقوق کے معاملے کو حمایت حاصل ہو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قتل کیے گئے انسانی حقوق کے کارکنوں کے مقدمات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی لیکن اس تازہ واقعے میں تفتیش کے دوران بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے ہیں جن سے امید ہے کہ راشد رحمن کے قاتلوں تک پہنچا جاسکے گا۔
" ہمیں امید ہے کہ پچھلے کیسز کی نسبت یہ ذرا بہتر ہوگا کیونکہ اس میں کچھ شواہد ہیں انھیں پہلے سے دھمکیاں ملی ہیں جو ڈاکیومنٹ بھی ہو چکی ہیں اور ہم یہی کہیں گے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے، اس کی پوری تحقیقات کرے، تفتیش مکمل ہونے پر پھر قانونی کارروائی کی جائے۔"
غالب امکان یہی ہے کہ دراصل راشد رحمن کو توہین مذہب کے ملزم کی پیروی پر ہی قتل کیا گیا۔ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کافی عرصے سے مطالبہ کرتی آرہی ہے لیکن ملک میں مذہبی جماعتوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومتیں اس معاملے میں ہاتھ ڈالنے سے گریزاں رہی ہیں۔
پاکستان عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ حقوق انسانی کے کارکنوں سمیت ہر شہری کے تحفظ کے لیے اقدامات کے جارہے ہیں جب کہ حکام نے راشد رحمن کے قتل میں ملوث عناصر کی تلاش کے لیے بھی کارروائی تیز کر رکھی ہے۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کو راشد رحمن کے قتل پر شدید افسوس ہے اور وہ اس ہلاکت کی تیزی سے تحقیقات مکمل کر کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستانی حکام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
گزشتہ بدھ کو ملتان میں نامعلوم مسلح افراد نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن راشد رحمن کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کرکے انھیں ہلاک کردیا تھا۔ وہاں موجود دیگر دو افراد اس واقعے میں زخمی ہوگئے تھے۔
راشد رحمن توہین مذہب کے ایک ملزم کے مقدمے کی پیروی بھی کر رہے تھے جس پر انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔
اس قتل کے خلاف نہ صرف وکلاء نے شدید احتجاج اور عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا بلکہ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی ملک کے مختلف شہروں میں صدائے احتجاج بلند کی گئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرپرسن کامران عارف کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ بیان راشد رحمن کے قتل کی تحقیقات میں مددگار ثابت ہوگا۔
"ظاہر ہے کہ پاکستان کی حکومت پر جتنا بھی دباؤ آئے اور حکومت سے جتنی بھی یقین دہانی مانگی جائے اچھی بات ہے۔ جس بھی طرف سے انسانی حقوق کے معاملے کو حمایت حاصل ہو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قتل کیے گئے انسانی حقوق کے کارکنوں کے مقدمات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی لیکن اس تازہ واقعے میں تفتیش کے دوران بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے ہیں جن سے امید ہے کہ راشد رحمن کے قاتلوں تک پہنچا جاسکے گا۔
" ہمیں امید ہے کہ پچھلے کیسز کی نسبت یہ ذرا بہتر ہوگا کیونکہ اس میں کچھ شواہد ہیں انھیں پہلے سے دھمکیاں ملی ہیں جو ڈاکیومنٹ بھی ہو چکی ہیں اور ہم یہی کہیں گے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے، اس کی پوری تحقیقات کرے، تفتیش مکمل ہونے پر پھر قانونی کارروائی کی جائے۔"
غالب امکان یہی ہے کہ دراصل راشد رحمن کو توہین مذہب کے ملزم کی پیروی پر ہی قتل کیا گیا۔ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کافی عرصے سے مطالبہ کرتی آرہی ہے لیکن ملک میں مذہبی جماعتوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومتیں اس معاملے میں ہاتھ ڈالنے سے گریزاں رہی ہیں۔
پاکستان عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ حقوق انسانی کے کارکنوں سمیت ہر شہری کے تحفظ کے لیے اقدامات کے جارہے ہیں جب کہ حکام نے راشد رحمن کے قتل میں ملوث عناصر کی تلاش کے لیے بھی کارروائی تیز کر رکھی ہے۔