امریکہ داعش کے خلاف جنگ میں تیزی کے لیے شام میں قلیل تعداد میں سپیشل آپریشن فورسز اور عراق میں ہیلی کاپٹروں کے استعمال پر غور کر رہا ہے۔
صدر براک اوباما مشرق وسطیٰ کی غیر مقبول جنگوں میں امریکی فوج بھیجنے کے سخت خلاف ہیں مگر وہ اپنے عہد صدارت کے آخری دور میں ان تجاویز پر غور کر سکتے ہیں۔
اوباما انتظامیہ پر، خصوصاً مئی میں عراق کے شہر رمادی پر داعش کے قبضے اور شام میں باغیوں کو تربیت فراہم کرنے کے امریکی پروگرام کی ناکامی کے بعد، دباؤ بڑھا ہے کہ وہ علاقے میں اپنی کارروائیاں تیز کرے۔
دو امریکی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عراق اور شام دونوں میں امریکی فورسز مخصوص اور محدود فوجی مقاصد کے لیے تعینات کی جائیں گی۔
جو تجاویز زیر غور ہیں ان میں شام میں اعتدال پسند حذب مخالف فورسز کی مشاورت کے لیے امریکی سپیشل آپریشنز فورسز کی شام کے اندر تعیناتی شامل ہے جو امریکی فضائیہ کو کارروائیوں کے لیے بلا سکیں گے۔
دیگر تجاویز میں ایک قلیل تعداد میں اپاچی ہیلی کاپٹروں اور انہیں چلانے والے عملے کو عراق بھیجنا اور داعش سے علاقے واپس چھڑانے کے لیے عراقی فورسز کی صلاحیت میں اضافے کے اقدامات شامل ہیں۔
امریکہ کو شام میں حکومت مخالف باغیوں سے توقع ہے کہ وہ داعش کے گڑھ رقہ پر دباؤ بڑھائیں۔ ادھر عراق میں امریکہ چاہتا ہے کہ عراقی فورسز رمادی کا قبضہ واپس حاصل کریں۔
ان تجاویز میں امریکی فوجیوں کی زمین پر براہ راست تعیناتی شامل نہیں، جس کی صدر اوباما اب تک مخالفت کرتے رہے ہیں۔
ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تجاویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور اگر ان میں سے کوئی منظور بھی ہو جائے تو امریکی فوج کی تعیناتی میں کئی ہفتے یا ماہ لگ سکتے ہیں۔
پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس نے ان تجاویز پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔