رسائی کے لنکس

ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ امریکی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے: بلنکن


اینٹونی بلنکن پیر کے روز ریاست میری لینڈ میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنے کے عزم پر بات کررہے ہیں ۔ اپریل انیس، دو ہزار اکیس، فوٹو اے پی
اینٹونی بلنکن پیر کے روز ریاست میری لینڈ میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنے کے عزم پر بات کررہے ہیں ۔ اپریل انیس، دو ہزار اکیس، فوٹو اے پی

امریکہ نے واضح کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ امریکی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق بائیس اپریل کو وائٹ ہاؤس میں وورچوئل کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، جس میں پاکستان سمیت دنیا کے چالیس ملکوں کے رہنماوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ نائیکی چنگ کی رپورٹ کے مطابق، سربراہ اجلاس میں مدعو کئے جانے والے 40 عالمی رہنماؤں میں چین کے صدر ژی جن پنگ بھی شامل ہیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ژی جن پنگ کو اس اجلاس میں افتتاحی خطاب کرنے کی دعوت دینے کیلئے تیاریاں کی جارہی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے پیر کے روز متنبہ کیا کہ قابلِ تجدید توانائی کو ترقی دینے کے حوالے سے چین امریکہ سے آگے نکل چکا ہے۔

امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر ایناپولس میں ماحول پر کام کرنے والی ایک تنظیم چیسپِیک بے فاؤنڈیشن سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ "اس وقت ہم کافی پیچھے ہیں۔ جبکہ چین دنیا میں شمسی توانائی پیدا کرنے والے سولر پینل، ہوا سے توانائی بنانے والی ونڈ ٹربائین، بیٹریاں اور برقیاتی آلات کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ملک ہے"۔ بلنکن کا کہنا تھا کہ دنیا میں قابل تجدید توانائی کے تقریباً ایک تہائی آلات کے ملکیتی حقوق چین کے پاس ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ نے قابل تجدید توانائی کےمیدان میں سبقت حاصل نہ کی، تو پھر یہ تصور محال ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ طویل مدتی سٹریٹیجک مقابلہ جیت سکے گا۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ آئندہ ماہ آئس لینڈ میں منعقد ہونے والے آرکٹک کونسل کے وزرا کے اجلاس، اور G-7 کے اجلاس سے پہلے، وہ ماحولیات سے متعلق مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے کیلئے امریکہ کے عزم کا دوبارہ اعادہ کررہے ہیں۔ جی سیون کے ممالک دنیا میں پیدا ہونے والی زہریلی گیسوں کے اخراج کے ایک چوتھائی کے ذمہ دار ہیں۔

امریکہ کی میزبانی میں 22 اور 23 اپریل کو منعقد ہونے والا سربراہ اجلاس ورچوئیل ہو گا جس میں عالمی لیڈر ماحولیاتی تبدیلی کا دھارا موڑنے کیلئے تعاون پر بات چیت کریں گے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ماحولیات سے متعلق امور پر چین کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہے، حالانکہ امریکہ کو چین کی ہانگ کانگ، سنکیانگ میں متشدد پکڑ دھکڑ اور جنوب بحیرہ چین اور تائیوان کے خلاف فوجی آپریشن کے علاوہ امریکی اتحادیوں کے ساتھ چین کی جانب سے برتے جانے والے معاشی جبر پر مبنی رویے پر سخت تشویش ہے۔

ماحولیات کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے جان کیری کی چین کے عہدیداروں سے ملاقاتوں کے بعد 17 اپریل کو امریکہ اور چین نے ٕ ماحولیات سے متعلق ہنگامی اقدامات اٹھانے کیلئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔

دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ وہ ترقی پزیر ممالک میں کاربن گیسوں سے بھرپور ایندھن سے کم کاربن والی صاف اور قابلِ تجدید توانائی کی جانب تبدیلی کیلئے عالمی سرمائے اور مالی معاونت کیلئے مناسب اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

چین اس قت دنیا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیسوں کے 30 فیصد اخراج کا ذمہ دار ہے، اور اس نے سن 2060 تک اسے کم ترین سطح تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

امریکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کاربن گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے جو دنیا میں کاربن کے اخراج کا 15 فیصد ہے۔ اس نے سن 2050 تک ایسی گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانےکا ہدف مقرر کیا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات چیت اس وقت تعطل کا شکار ہو گئی تھی، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے سن 2017 میں ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔

XS
SM
MD
LG