امریکی کسی اور معاملے میں بھلے سے سنجیدہ نہ ہوں مگر خواب دیکھنے، خواب خریدنے اور خواب بیچنے کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ خواب امریکہ کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ ہر سال کھربوں ڈالر کے خواب خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔یہ امریکی معاشرے کا ایک ایسا نشہ ہے جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ خواب بکھرنے پر کوئی بے مزہ نہیں ہوتا۔ کسی کا دل نہیں ٹوٹتا۔ بلکہ وہ نئے جوش و جذبے سے ایک نیا خواب خریدنے کے لیے قطار میں لگ جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ امریکہ میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔ حتی کہ خواب بھی۔اور اگر خواب اپنا اور اپنی نسلوں کے مستقبل سنوارنے کا ہوتو ایک ڈالرخرچ کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ ایک ڈالر میں تو کافی کا کپ بھی نہیں ملتا۔جب کہ کمپیوٹر آپ کو ایک ڈالر کے عوض ہفتہ بھر کئی عشروں پر پھیلے ہوئے ایک آسودہ اور پرآسائش مستقبل کا دل موہ لینے والا منظر دکھاتاہے۔ ایسا سہانا مستقبل کہ چٹان جیسا دل بھی موم ہوجائے۔
ایک ڈالر کے اس خواب کا نام ہے لاٹری۔امریکہ میں اکثر لاٹریاں سرکاری سرپرستی میں چلتی ہیں۔ اکثر امریکی ریاستیں خود لاٹری کا نظام چلاتی ہیں۔ اور ان لاٹریوں کے ذریعے ہر ہفتے کروڑوں ڈالر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اپنے بڑے انعامات کی بنا پر دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی لاٹری ملک بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ بسا اوقات تو یہ رقم پچیس تیس کروڑ ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ایک ڈالرخرچ کرکے تیس کروڑ ڈالر کا خواب دیکھنے میں آخر مضائقہ ہی کیا ہے؟
یہاں لاٹری کا بھی عجیب سائنٹیفک نظام ہے۔ٹکٹ خریدنے والے کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر جیتنے کے لیے اپنی بصیرت اور عقل و فہم استعمال کرے، یا اپنےمقدر کافیصلہ کرنے کا اختیار کمپیوٹر کو دے دے۔لاٹری ٹکٹ پر چھ نمبروں کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ پہلے پانچ نمبروں میں سے ہر نمبر ایک سے 59 تک کا کوئی ہندسہ ہوسکتا ہے جبکہ چھٹا اور آخر نمبر ایک سے35 تک کا کوئی عدد ہوتاہے۔ جیسے ہی آپ نمبر لکھ کر کمپیوٹر میں ڈالتے ہیں ، وہ نام اور پتے کے ساتھ اسے مرکزی ڈیٹا بیس میں محفوظ کردیتا ہے۔ اگر آپ کے نمبر کمپیوٹر میں محفوظ انعامی نمبروں سے مل جاتے ہیں تو آپ کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل جاتی ہے۔آپ کو تعبیر نہ بھی ملے تو بھی آپ کاخرچ کیا ہوا ایک ڈالرہزاروں لاکھوں لوگوں کا مقدر سنوارنے کے کام آجاتا ہے۔ کیونکہ امریکہ میں لاٹری عوامی فلاح وبہود کے منصوبے چلانے کے لیے فنڈ ز اکھٹے کرنے کا ایک قانونی ذریعہ ہے۔ ریاست ورجینیا میں لاٹری سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تقربیاً ایک تہائی بچوں کو پہلی سے بارہویں تک مفت تعلیم فراہم کرنے کے پروگرام پر خرچ کیا جاتا ہے جب کہ باقی رقم میں سے انتظامی اخراجات نکال کراسے جیتنے والوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔دوسری ریاستیں بھی یہ رقم زیادہ تر اپنے تعلیمی پروگراموں پر صرف کرتی ہیں۔
ہفتہ وار لاٹری کی شروعات چار کروڑ ڈالرکے انعام سے ہوتی ہے۔ جس ہفتے انعام نہیں نکلتا، اس کی رقم اگلے ہفتے کے انعام میں جمع ہو جاتی ہے۔اور ایسا اکثر ہوتا کہ کئی ہفتوں تک کسی کا نمبر نہیں نکلتا اور لاٹری بڑھتے بڑھتے پچیس تیس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ جیسے جیسے انعامی رقم بڑھتی ہے، امریکیوں کا جوش وخروش بھی بڑھتاجاتاہے اور لاٹری بیچنے والے اسٹوروں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اور پھر جس رات میگا انعام کا اعلان ہونے والا ہوتا ہے، گویا ایک ہو کا عالم ہوتا ہے۔ کروڑوں امریکی اپنے سانس روکے، دھڑکتے دلوں کے ساتھ، یہ جاننے کے لیے اپنے ٹیلی وی یا کمپیوٹر سکرینوں کےسامنے بیٹھ جاتے کہ ہوسکتا ہے کہ مقدر کی دیوی انہی کے گھر میں اترنے والی ہو۔
میرے ایک دوست ہرہفتے باقاعدگی سے ڈی سی لاٹری خریدتے ہیں۔ جب لاٹری کی رقم بڑی ہوجاتی ہے تو وہ خود نتیجہ نہیں دیکھتے، بلکہ نمبر مجھے دے دیتے ہیں کہ اگر یہ نکل آئے تو مجھے آہستہ آہستہ وقفوں کے ساتھ بتانا، کہیں میں خوشی سے پاگل ہی نہ ہوجاؤں۔
میں نے کہا کہ میں نے تو یہ سنا ہے کہ پیسہ دیوانے کو بھی سیانا بنا دیتا ہے۔نہ بھی بنائے تو بھی لوگ اسے سیانا سمجھنے لگتے ہیں۔
وہ سرہلاکر بولے کہ میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ پاکستان میں ہمارے ایک پڑوسی کی پچاس لاکھ روپے کی لاٹری نکل آئی۔اس زمانے میں پچاس لاکھ میں فلور مل لگ جاتی تھی۔ خبر ملتے ہی وہ بہکی بہکی باتیں اور الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگا۔ گھروالے اسے اسپتال کے دماغی شعبے کے وارڈ میں لے گئے۔ مہینہ بھر علاج کے بعد وہ ٹھیک ہوا مگر گھر آتے ہی پھر سے پاگل ہوگیا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیوں۔ وہ بولا۔ کیونکہ لاٹری کی کمپنی ساری رقم سمیت غائب ہوچکی تھی۔
لیکن ادھر امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ نصف شب جب لاٹری کے نتیجے کااعلان ہوا توچار کروڑ ڈالر کا پہللا انعام جیتنے والا شخص واشنگٹن کے ایک مضافاتی اسٹور میں رات کی ڈیوٹی کررہا تھا۔ اس کے سپروائز نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اب تم کروڑ پتی بن چکے ہو، میں تمہیں ڈیوٹی سے چھٹی دیتا ہوں ۔گھر جاکر عیش کرو۔ وہ کندھے اچکا کربولا کہ کیا تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے کہ میں آج کی تنخواہ چھوڑ کر گھر چلاجاؤں گا۔
میرے دوست کا کہناہے کہ امریکہ میں اپنے قیام کے بیس برسوں کے دوران وہ لاٹری کے ٹکٹوں پر اب تک بیس ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکاہے۔ لیکن اسے کبھی ایک دھیلا بھی انعام میں نہیں ملا۔ میں نے کہا کہ اگر تم ٹکٹ نہ خریدتے تو اس وقت بیس ہزار تمارے پاس ہوتے۔ وہ مسکرایا۔ لیکن میرے پاس خوبصورت خواب بھی تو نہ ہوتے۔