جو بائیڈن امریکی تاریخ کے 20ویں نائب صدر ہیں جو سال 2020 میں صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔
اگرچہ اب تک 14 نائب صدور بعد میں صدر بننے میں کامیاب ہوچکے ہیں، لیکن ان میں سے 9 کو یہ موقع کسی صدر کے قتل، انتقال یا استعفے کی وجہ سے ملا۔ صرف پانچ نائب صدر ایسے ہیں جنھوں نے نائب صدارت کی مدت مکمل کرنے کے بعد صدارت کا انتخاب جیتا۔ ٹھیک پانچ ہی نائب صدر ایسے ہیں جو صدارتی انتخاب ہارے اور کبھی صدر نہیں بن سکے۔
امریکہ کے اولین دور میں صدارت اور نائب صدارت کے الگ امیدوار نہیں ہوتے تھے۔ پہلے نمبر پر آنے والا امیدوار صدر اور دوسرے نمبر پر آنے والا امیدوار نائب صدر بن جاتا تھا۔ 1788 میں ہوئے پہلے انتخاب میں 12 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں 69 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے والے جارج واشنگٹن صدر اور 34 الیکٹورل ووٹ لینے والے جان ایڈمز نائب صدر بن گئے تھے۔ 1796 میں ایسے ہی انتخاب کے بعد جان ایڈمز خود بھی صدر بنے۔
دلچسپ بات ہے کہ تین امریکی رہنماؤں نے پہلے صدارتی انتخاب لڑا اور بعد میں نائب صدر منتخب ہوئے۔ جارج کلنٹن اولین تین انتخابات میں امیدوار تھے لیکن ناکام رہے۔ بعد میں 1804 اور 1808 میں نائب صدر بنے۔
ایورن بر 1792 اور 1796 میں صدارتی انتخاب ہارے اور 1800 میں نائب صدر بنے۔ تھامس ہینڈرکس نے 1872 میں صدارتی الیکشن میں شکست کھائی اور 1884 میں نائب صدارت جیتی۔
تین نائب صدور صدر ایسے ہیں جنھیں کسی صدر کے قتل یا انتقال پر اعلیٰ ترین عہدہ ملا لیکن اس کے بعد انھوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ 1841 میں ولیم ہنری ہیریسن کے انتقال پر جان ٹائیلر، 1865 میں ابراہام لنکن کے قتل پر اینڈریو جانسن اور 1881 میں جیمز گارفیلڈ کے قتل پر چیسٹر آرتھر صدر بنے تھے۔
1850 میں زیچری ٹیلر کے انتقال پر ملرڈ فلمور صدر بن گئے تھے اور انھوں نے بھی 1852 کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن 4 سال بعد وہ میدان میں کودے تو انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
چار نائب صدر ایسے تھے جنھیں کسی صدر کے قتل یا انتقال پر ترقی ملی اور وہ اگلا انتخاب خود بھی جیتے۔ 1801 میں ولیم میک کنلے کے قتل پر تھیوڈور روزویلٹ، 1923 میں ویرن ہارڈنگ کی موت پر کیلون کولج، 1945 میں فرینکلن روزویلٹ کے انتقال پر ہیری ایس ٹرومین اور 1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل پر لنڈن بی جانسن صدر بنے اور پھر اگلے الیکشن میں خود بھی کامیابی حاصل کی۔
جیرالڈ فورڈ امریکی تاریخ کے واحد سیاست دان ہیں جو صدر یا نائب صدر کا الیکشن لڑے بغیر اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچے۔ 1973 میں ایوان نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کے قائد تھے۔ نائب صدر اسپیرو ایگنیو کے مستعفی ہونے پر صدر نکسن نے انھیں نائب صدر نامزد کیا۔ اگلے سال نکسن خود مستعفی ہوئے تو جیرالڈ فورڈ صدر بن گئے۔ 1976 میں انھوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا، لیکن شکست کھائی۔
صرف پانچ نائب صدر ایسے ہیں جنھوں نے نائب صدارت کی مدت مکمل کرنے کے بعد صدارت کا انتخاب جیتا۔ جان ایڈمز 1788 اور 1792 میں نائب صدر رہے، 1796 میں الیکشن جیت کر صدر بنے اور 1800 میں صدارتی انتخاب ہارا۔
تھامس جیفرسن 1792 کا صدارتی انتخاب ہارے، 1796 میں دوسرے نمبر پر رہنے کی وجہ سے نائب صدر بنے۔، پھر 1800 اور 1804 میں صدر بنے۔ مارٹن وین بورن 1832 میں نائب صدر اور 1836 میں صدر منتخب ہوئے۔ 1840 کے صدارتی انتخاب میں انھیں شکست ہوئی۔ 1844 میں انھوں نے حصہ نہیں لیا۔ 1848 میں پھر قسمت آزمائی اور پھر ہارے۔
اس کے بعد رچرڈ نکسن کا نمبر آتا ہے جن کا نام جدید دور میں سب سے زیادہ بار صدارتی الیکشن کے بیلٹ پیپر پر آیا اور وہ سب سے مختلف حالات کا شکار بھی ہوئے۔ 1952 اور 1956 میں وہ ڈوائٹ آئزن ہاور کے نائب صدر تھے۔ 1960 میں انھیں ری پبلکن پارٹی نے صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار بنایا لیکن وہ جان ایف کینیڈی سے ہار گئے۔ انھوں نے اگلے انتخاب میں خاموشی اختیار کی اور 1968 میں دوبارہ میدان میں آئے۔ نہ صرف اس بار الیکشن جیتا بلکہ 4 سال بعد دوبارہ بھی منتخب ہوئے۔
اس کے بعد کی کہانی سب جانتے ہیں کہ واٹرگیٹ اسکینڈل کی وجہ سے انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ مستعفی ہونے والے امریکہ کے واحد صدر ہیں۔
جارج بش سینئر آخری نائب صدر تھے جو صدارت کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ 1980 اور 1984 میں وہ رونالڈ ریگن کے نائب تھے اور 1988 میں خود صدر بنے۔ لیکن 1992 میں دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے اور بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔
پانچ نائب صدر ایسے گزرے ہیں جنھوں نے صدر کا انتخاب لڑا۔ لیکن کامیابی نے ان کے قدم نہیں چومے۔ 1856 میں جیمز بکانن کے نائب جان بریکنرج 1860 میں ابراہام لنکن سے ہار گئے تھے۔ 1940 میں فرینکلن روزویلٹ کے نائب صدر رہنے والے ہیری ویلس 1948 میں بے وجہ میدان میں اترے اور بری طرح ناکام ہوئے۔
1964 میں لنڈن بی جانسن کے نائب ہیوبرٹ ہمفرے نے 1968 میں صدارتی الیکشن لڑا اور رچرڈ نکسن کے مقابلے پر نامراد رہے۔ 1976 میں جمی کارٹر کے نائب والٹر مونڈیل نے 1984 میں رونالڈ ریگن کو ری الیکٹ ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور تاریخ کی بدترین شکست کھائی۔
آخری واقعہ زیادہ پرانا نہیں جب بل کلنٹن کے 1992 اور 1996 کے نائب ایل گور نے 2000 میں جارج بش جونئیر کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی لیکن ان سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صدر نہ بن سکے۔ یہ معاملہ عدالت تک بھی پہنچا تھا۔
اس بار جو بائیڈن صدر ٹرمپ کو دوبارہ منتخب ہونے سے روکنے کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جو بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں آسان کام نہیں۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ جب کوئی صدر یا نائب صدر وقفے کے بعد الیکشن لڑتا ہے تو کامیاب نہیں ہوتا۔
اگر بائیڈن نے انہونی کردی تو یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے شخص ہوں گے۔ ورنہ کم از کم مونڈیل سے بری کارکردگی نہیں ہوگی جو 1984 میں 50 میں سے 49 ریاستیں ہار گئے تھے۔