|
چین میں رواں ماہ کے دوران تشدد کے مختلف واقعات میں 43 افراد کی ہلاکت اور 70 کے زخمی ہونے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
ان واقعات پر جہاں سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں تو وہیں سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بات ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر مختلف ماہرین سے بات کی ہے جن میں سے بعض کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا تعلق چین کو درپیش معاشی چیلنجز سے ہے جن سے عام شہری بھی براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی حکومت کرونا وبا کے بعد دوبارہ معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے شہریوں کی شکایات کا ازالہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ذہنی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں جن کے سدِباب کے لیے حکومتی اقدامات بھی ناکافی ہیں۔
ایک حالیہ واقعے میں مشرقی چین کے شہر ووشی میں ایک 21 سالہ طالبِ علم نے اسکول میں ایک تقریب کے دوران چاقو کے وار کر کے آٹھ افراد کو ہلاک اور 17 کو زخمی کر دیا۔ نوجوان انٹرن شپ میں اپنی تنخواہ سے مطمئن نہیں تھا۔
اگست میں معاوضے کے تنازع پر ایک 29 سالہ شخص نے ایک فیکٹری میں کار لوگوں پر چڑھا دی جس سے آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ صوبہ گوانگ ڈونگ میں پیش آیا۔
ریسرچ ادارے 'چائنا ڈسنٹ مانیٹر پروجیکٹ' سے وابستہ محقق کیون سلیٹن کا کہنا ہے کہ "یہ پرتشدد حملے کثرت سے ہو رہے ہیں اور ان کی بنیادی وجہ چین کی سست معیشت ہے جس کی وجہ سے صنعتوں اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔"
اُن کا کہنا ہے کہ معاشی مشکلات جہاں چین میں مزدوروں کے احتجاج کا باعث بنی ہیں وہیں بعض افراد نے اپنی مایوسی کا اظہار انتہائی اقدام اُٹھا کر کیا ہے۔
کیون سلیٹن کہتے ہیں کہ "بہت سے افراد سال کے اختتام پر بھی تنخواہوں سے محروم ہیں اور یہی معاملہ احتجاج کو جنم دیتا ہے۔ لوگ مایوس اور نااُمید ہو رہے ہیں اور بعض تشدد کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔"
کیون سلیٹن کہتے ہیں کہ چین میں اُجرت سے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے طریقۂ کار موجود ہیں۔ لیکن اکثر ان چینلز سے مسائل حل نہیں ہوپاتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ چین کے عدالتی نظام میں اجتماعی نوعیت کے کیسز لانا کافی مشکل ہے جب کہ کیسز کی شنوائی میں بھی کافی وقت لگتا ہے۔ لہذٰا کمزور کمیونیٹز کے پاس عدالت جانے کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔
کیون سلیٹن خیال میں ان عوامل کی بنا پر چینی عوام اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے دیگر پلیٹ فارمز استعمال کریں کرسکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات کا باعث بن سکتے ہیں۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ چین کی سست معیشت کی وجہ سے ورکنگ کلاس طبقات سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
کارنیل یونی ورسٹی کے اسکول آف انڈسٹریل اینڈ لیبر ریلیشنز کے پروفیسر ایلی فریڈمین کہتے ہیں کہ چین میں لاکھوں تارکینِ وطن کے لیے سوشل سیکیورٹی نہیں ہے اور نہ ہی بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے انشورنس کا کوئی نظام ہے۔
تشدد کے بڑھتے واقعات کا رجحان
وی او اے نے رواں سال فروری اور نومبر کے درمیان چین میں پرتشدد حملوں کی آن لائن رپورٹس کی تحقیق کی۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 120 افراد ہلاک اور 213 سے زائد زخمی ہوئے۔
نومبر چین میں مہلک ترین مہینہ رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر حملوں میں چاقو استعمال کیے گئے جب کہ لوگوں پر گاڑیاں چڑھانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
چینی حکام کی جانب سے سوشل میڈیا کی مسلسل نگرانی کی وجہ سے بیش تر واقعات کی تفصیلات اور محرکات سامنے نہیں آ سکیں۔
'حکام نہیں چاہتے اس پر زیادہ بات ہو'
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکام پرتشدد حملوں سے متعلق معلومات کو چھپانا چاہتے ہیں۔
شکاگو یونی ورسٹی میں چینی سیاست کے ماہر ڈالی یانگ کہتے ہیں کہ ہر واقعے کے بعد حکومت سوشل میڈیا پر اس معاملے پر بحث کو سینسر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ڈالی یانگ کہتے ہیں کہ حکام نہیں چاہتے کہ لوگ اس معاملے پر زیادہ بات کریں۔
جب وائس آف امریکہ نے چین کی 'ایکس' سے ملتی جلتی سوشل میڈیا ایپ 'ویبو' کا جائزہ لیا تو سامنے آیا کہ لوگوں پر گاڑی چڑھانے کے واقعے سے متعلق پوسٹس نہیں ملیں۔
یانگ کہتے ہیں کہ معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کی حکومتی کوششوں کے باوجود چینی شہری تشدد کی کارروائیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
اُن کے بقول مختلف چیٹ رومز اور دیگر ایپس پر چینی شہری ان حملوں سے متعلق بات کرتے ہیں۔
چینی حکومت کا ردِعمل
ووشی حملے کے بعد صدر شی جن پنگ نے متعلقہ حکام پر زور دیا تھا کہ وہ ایسے واقعات کے محرکات کا سدِباب کریں۔
اُنہوں نے معاوضوں سے متعلق تنازعات کے بروقت حل کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔
چین کے اعلیٰ استغاثہ کے دفتر نے بھی طلبہ اور اسکول کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چینی حکام نے ایسے افراد کی نشان دہی شروع کر دی ہے جو شہریوں پر اندھا دھند حملہ کر سکتے ہیں۔ ان میں حال ہی میں بے روزگار ہونے والے اور کم آمدنی والے افراد شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بے روزگاروں اور کم آمدنی والے افراد کے لیے چینی حکومت انشورنس اور طبی سہولتوں کا اہتمام کرتی ہے۔ تاہم معاشی چیلنجز کی وجہ سے حکومت کے لیے ایسے پروگرام جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
فورم