|
سرسبز و شاداب جنگل میں گھرا چھوٹا سا گاؤں جس کی آبادی صرف آٹھ ہزار ہے۔ اس میں وائلن تیار کرنے والے جتنے فن کار رہتے ہیں شاید ہی کسی اور بستی میں ہوں۔
یہ جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا میں ایمیزون کے جنگلات سے گھرے ایک گاؤں اوروبیکا کا تذکرہ ہے جہاں 40 سے 50 کاری گر وائلن تیار کرتے ہیں۔
اوروبیکا کے ایک مقامی فنکار والڈو پاپو کا کہنا ہے کہ انہوں نے دنیا میں کوئی اور ایسی جگہ نہیں دیکھی جہاں ایک وقت میں اتنے وائلن تیار ہوتے ہیں۔
پاپو اوروبیکا انسٹی ٹیوٹ آف آرٹسٹک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں جو بولیویا میں موسیقی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس میں تقریباً 600 طلبہ موسیقی کی تربیت لیتے ہیں۔
ان میں 20 طلبہ اپنی مقامی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے وائلن تیار کرنے کی تربیت لے رہے ہیں جسے ان کے استاد ہلڈبیرٹو اوریائی نے جاری رکھا۔
اوریائی کی عمر 76 برس ہے اور انہوں نے وائلن بنانا اپنے والد سے سیکھا تھا۔ وہ دو ہفتے میں ایک کلاسیکی انداز کا وائلن تیار کر لیتے ہیں۔
وائلن کے یہ استاد بولیویا کی 37 مقامی زبانوں کو ملا کر بنائی گئی زبان گورائیو اور ہسپانوی کو ملا کر بولتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آپ کو ساز کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے بہت صبر چاہیے ہوتا ہے تبھی ایک اچھا ساز تیار ہوتا ہے۔
وائلن کی تیاری کے لیے مقامی طور پر پائی جانے والے درخٹ سیڈر یا مارا کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ تیار ہونے والا ایک وائلن لگ بھگ 580 ڈالر کا فروخت ہوتا ہے۔
روایت کی جڑیں
اوریائی کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ اوروبیکا میں رہتے ہیں۔ نازک سروں کے ساز وائلن تیار کرنے والے اس ہنر مند کی سماعت کچھ کمزور ہو گئی ہے۔ لیکن وہ برسوں کی ریاضت سے حاصل ہونے والی سمجھ بوجھ اور مہارت سے اپنے تیار کیے گئے ساز کو ٹیون کر لیتے ہیں جسے سُر کرنا بھی کہا جاتا ہے۔
اپنی بوسیدہ سی ورک شاپ کے سامنے بیٹھے اوریائی کا کہنا ہے کہ انھیں خود بھی وائلن بجانا بہت پسند ہے۔
اپنے علاقے کے بعض فن کاروں کے برعکس اوریائی اپنی اولاد کو اپنا وہ فن منتقل نہیں کرسکے ہیں جو انہیں اپنے دادا سے ملا تھا۔
اوروبیکا دارالحکومت سانتا کروز سے 300 کلومیٹر فاصلے پر بسنے والا گاؤں ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں یہاں آنے والی کیتھولک مسیحی مشنری فرانسسکن نے سب سے پہلے مقامی لوگوں کی ہنر مندی اور موسیقی کے ٹیلنٹ کو دریافت کیا تھا۔
بشریات کے ماہرین کی رائے میں مقامی گورایو افراد کے موسیقی سے لگاؤ کا تعلق موت کے بارے میں ان کے عقائد سے ہے۔
مقامی مورخ یوان یوراناوی کہتے ہیں کہ ان عقائد کے مطابق جب مرنے کے بعد کوئی اپنے ان عظیم آباؤ اجداد سے ملتا ہے جنھیں وہ دیوتا کا درجہ دیتے ہیں تو اسے ’ٹکورا‘ نامی بانسری بجانا پڑتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ گورایو لوگوں کا عقیدہ ہے کہ روح ایک مگر مچھ پر سوار ہو کر اپنے آباؤ اجداد کی جانب سفر کرتی ہیں۔ اس دوران روح کو ٹکورا بانسری بجانا ہوتی ہے اور اگر اس شخص نے زندگی میں لاپروائی کی وجہ سے درست انداز میں ساز بجانا نہیں سیکھا ہوتا تو وہ مگر مچھ اسے راستے ہی میں دریا میں الٹا دیتا ہے۔
موسیقی سے اسی تعلق کو دیکھتے ہوئے مسیحی مشنری نے مقامی آبادی کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے وائلن کا سہارا لیا۔
پاپو بتاتے ہیں کہ پہلے یہ ساز صرف گرجا گھروں میں بجایا جاتا تھا اور بعد میں لوگوں نے خود اسے بجانا سیکھ لیا۔
اورونیکا میں تیار ہونے والے وائلن کئی مقامی افراد خرید نہیں پاتے۔ بہت سے فنکار چاہتے ہیں کہ ان کے ہنر سے ان کی بستی میں ایسی خوشحالی آئے کہ یہاں بننے والے ساز ان کے بچوں تک بھی پہنچنے لگیں۔
اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم