پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے پُلوامہ کے واقعے میں قیمتی جانوں کے نقصان پر ’’ہمیں افسوس اور صدمہ ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ اگر بھارت کے پاس ’جیش محمد‘ کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو حقائق سے آگاہ کیا جائے؛ ’’پاکستان نہ صرف اس کی تحقیق میں تعاون کرے گا، بلکہ ذمےداروں کے خلاف ٹھوس اقدام کرے گا‘‘۔
جمعے کے روز جرمنی کے شہر میونخ میں ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے، ہینری رِج ویل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’محض الزام تراشی کی بنا پر یہ کہنا کہ پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کیا جاسکتا ہے، خام خیالی ہے، جس سے ہم خائف ہونے والے نہیں‘‘۔
سوال کے جواب میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ ہمارا ایجنڈا نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کا دھیان اپنی مغربی سرحد پر مرتکز ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں امن و استحکام آئے۔ ہم بالکل نہیں چاہیں گے کہ ہماری مشرقی سرحد پر کشیدگی ہو۔ ہم ہندوستان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں‘‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی مسائل ہیں جن کا گفت و شنید سے حل تلاش کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے، بقول اُن کے، ’’پاکستان تیار ہے، لیکن بھارت تیار نہیں‘‘۔
پلوامہ خودکش حملے پر بھارت کے رد عمل کے بارے میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ تحقیق کیے بغیر کی جانے والی الزام تراشی ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے، جس کا نہ بھارت کو کوئی فائدہ ہوا نہ پاکستان کو‘‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ ’’مثبت، عزت پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہے‘‘۔
اُنھوں نے ’ہیومن رائٹس واچ‘ اور ’ہاؤس آف کامنز‘ کی رپورٹوں کا ذکر کیا، جن میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں تفصیل درج ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیری خود نہ چاہیں اُنھیں کوئی ملک ’’ہنگامہ آرائی کی جانب مائل یا مجبور نہیں کرسکتا‘‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کو چاہیئے کہ ’’کشمیر سے متعلق اپنے مؤقف کا جائزہ لے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت عمل کرتے ہوئے، حقیقت پسندانہ مؤقف اپنائے‘‘۔
افغانستان سے متعلق ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کا امن اور استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے۔ امریکہ طالبان مذاکرات کے سوال پر اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے‘‘، جب کہ اس ضمن میں ’’قومی سطح پر پاکستان میں اتفاق رائے موجود ہے‘‘۔
جرمنی میں قیام کے دوران امریکی ایوان نمائندگان کے وفد سے ملاقات کے بارے میں سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے اور طویل مدتی معاشی ساجھے داری کو فروغ دینے کے معاملے پر اتفاق رائے نمایاں ہے۔ بقول اُن کے، ’’مجھے اعتماد ہے کہ ہماری سمت درست ہوگئی ہے، اور مستقبل قریب میں ہمارے تعلقات بہت بہتر ہوں گے‘‘۔