’وائس آف امریکہ‘ کے دو نمائندے، محمود بوارسلان ترکی کے شہر، مدیت کے اُس مقام پر وڈیو شوٹ کر رہے تھے جہاں بدھ کے روز کار بم دھماکہ ہوا تھا، جب لوگوں کے ایک گروہ نے اُن سے عکس بندی کے پیشہ ورانہ فرائض بند کرنے کے لیے کہا۔ گروہ نے ارسلان کو مارا پیٹا اور اُن کا کیمرہ توڑ دیا۔ اُنھیں سر اور جسم پر زخم آئے، جنھیں اسپتال داخل کر دیا گیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کی کُرد سروس کی نامہ نگار، ہیتس قمر بھی اُسی مقام پر بم دھماکے کا کوریج کر رہی تھیں، جب مرد حضرات پر مشتمل ایک گروہ اُن کے قریب آیا اور مطالبہ کیا کہ وہ وڈیو شوٹنگ بند کریں۔ اُنھوں نے انکار کرتے ہوئے، ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ اس پر، ہجوم نے قمر کو پتھر مارے۔ قمر کو بھی سر پر چوٹیں آئیں، جنھیں اسپتال داخل کیا گیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کی ڈائریکٹر اماندا بنیٹ نے کہا ہے کہ ’’وائس آف امریکہ کے صحافیوں پر حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ ہم اپنے نمائندوں کے خلاف تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم ترک حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور ترکی میں کام کرنے والے تمام صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اس قسم کے حربے ’وائس آف امریکہ‘ کو سچ پر مبنی حقائق کو رپورٹ کرنے کے مشن سے نہیں روک سکتے‘‘۔
’بی بی جی‘ کے چیف اگزیکٹو افسر اور ڈائریکٹر، جان ایف لینسنگ نے کہا کہ ’’براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز تُرک حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو نافذ کیا جائے اور حملہ آوروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ترکی کا عوام خبروں اور اطلاعات تک بے لاگ رسائی کا حق رکھتا ہے۔ ہم اپنے صحافیوں کے خلاف تشدد برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔
قمر اور ارسلان شامی سرحد کے قریب، مدیت میں پولیس تھانے کے باہر ہونے والے کار بم دھماکے کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ دھماکے میں ایک پولیس اہل کار اور دو شہری ہلاک ہوئے، جب کہ کم ازکم 30 افراد زخمی ہوئے۔ یہ بات ترک وزیر اعظم بنالی یلدرم نے بتائی، جنھوں نے حملے کا الزام کرد شدت پسندوں پر عائد کیا۔