رسائی کے لنکس

جنگوں کے باعث ایک کروڑ سے زائد بچوں کا مستقبل خطرے میں: اقوام متحدہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ادارہ برائے اطفال نے کہا کہ اسکولوں سے باہر بچے غیر قانونی طور پر کام کرنے لگتے ہیں اور اپنے کنبوں کی کفالت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کا استحصال کیا جا سکتا ہے اور انہیں زیادہ آسانی سے مسلح گروپوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف نے جمعرات کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جاری جنگوں سے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد بچے سکول جانا بند ہو گئے ہیں جس سے ان کے مستقبل کے بارے میں امیدیں چکنا چور ہو گئیں ہیں۔

یونیسف نے ’’تعلیم آتش کی زد میں‘‘ نامی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شام، عراق، یمن اور لیبیا کے نو علاقوں میں سکول جانے کی عمروں کے بچوں پر جنگ کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، جہاں پوری ایک نسل تعلیمی نظام سے باہر جوان ہو رہی ہے۔

یونیسف کے علاقائی ڈائریکٹر پیٹر سلاما نے کہا کہ ’’یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں کہ ہم جو اپنے ٹیلی وژن پر دیکھ رہے ہیں، کشتیوں میں سوار ہو کر یونان اور اٹلی میں داخل ہونے والے لوگوں کی المیہ تصاویر، اس کا تعلق شام میں جنگ اور کچھ حد تک عراق میں جنگ سے ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مہاجرین میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کی تعلیم ان کی اولین ترجیح ہے اور علاقے میں بہت سے ممالک یہ بنیادی انسانی حق ان کو نہیں دے پا رہے۔

اس تحقیق میں شام کے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن اور ترکی جو بہت بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور سوڈان اور فلسطینی علاقوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔

ادارہ برائے اطفال نے کہا ہے کہ اسکولوں پر حملے بہت سے بچوں کے اسکول نہ جانے کی وجہ ہیں، جبکہ کئی سکولوں کی عمارتوں میں بے گھر افراد نے پناہ لی ہوئی ہے یا انہیں لڑائی کے شرکا اپنے اڈوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف شام، عراق، یمن اور لیبیا میں نو ہزار سکولوں کو تعلیم کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا۔

اس علاقے میں ہزاروں اساتذہ نے خوف سے اپنی ملازمتیں چھوڑ دی ہیں جس کے باعث والدین نے بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا ہے۔

جن ممالک میں مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے وہ بچوں کے اسکولوں کا انتظام کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں کیونکہ ان کے تعلیمی نظام اتنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لیے نہیں بنائے گئے۔

’’ہر کوئی اس غیر معمولی بحران سے نمٹنے کے لیے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ جنگ عظیم دوم کے بعد یہ آبادی کی سب سے بڑی نقل مکانی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اسکولوں سے باہر بچے غیر قانون طور پر کام کرنے لگتے ہیں اور اپنے کنبوں کی کفالت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کا استحصال کیا جا سکتا ہے اور انہیں زیادہ آسانی سے مسلح گروپوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

’’ہم بچوں کی ایک نسل کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی جنگ کے ہاتھوں کھونے کے قریب ہیں۔ ہمیں اپنی کوششیں تیز کرنی ہوں گی، ورنہ یہ ناقابل تلافی اور طویل المدتی نقصان ہو گا جو ہم خود اس علاقے کے بچوں کو پہنچا رہے ہیں۔‘‘

XS
SM
MD
LG