گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
صبح ٹھیک ساڑھے چار بجے فون کی گھنٹی نے عبدالقادر کی آمد کی اطلاع دی۔۔۔آسمان پر اندھیرے کی چادر تنی تھی اور چھاجوں مینہ برس رہا تھا۔۔ میں بارش سے بچتی بچاتی گاڑی تک پہنچی، عبدالقادر کے انداز میں تپاک اور اتنی اپنائیت تھی کہ مجھے محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس عرب بزرگ سے زندگی میں پہلی مرتبہ ملی ہوں۔۔
گاڑی مسجد ِاقصیٰ کے راستے پر ڈالنے اور حال چال پوچھنے کے بعد عبدالقادر ایک مستعد گائیڈ کی طرح آس پاس کے علاقوں کے بارے میں بتانے لگا۔۔۔ تقریبا آٹھ نو منٹ میں گاڑی ایک تنگ سی سڑک پر چڑھنے لگی، ’یہ سڑک قدیم یروشلم کے باب الاسباط کی طرف جاتی ہے جسے انگریزی میں Lions Gate کہتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر تیزی سے چڑھائی چڑھتے یہ لوگ مقامی اسرائیلی عرب ہیں اور فجر کی جماعت کے لیے مسجد ِاقصیٰ جا رہے ہیں‘۔۔۔ تنگ سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں کھڑی تھیں اور ہماری گاڑی گزرنے کی گنجائش کم ہی تھی، مگر عبدالقادر مہارت سے گاڑی باب الاسباط کے بڑے سے آہنی دروازے سے اندر لے گیا۔۔۔ ’ہم فجر کے بعد یہیں ملتے ہیں،‘ ایک تنگ سی گلی کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے وہ بولا۔
میں خواتین اور مردوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کے پیچھے چل پڑی، بارش ہنوز برس رہی تھی، یہ گلی بہت قدیم اور تنگ ہونے کے باوجود صاف ستھری تھی، گلی کے اختتام پر چیک پوسٹ موجود تھی جہاں تین مستعد اسرائیلی عرب گارڈز بندوقیں تھامے کھڑے تھے۔۔۔ ’ٹھہریئے، آپ کہاں سے ہیں؟‘ وہ غیر عرب کو پہچاننے میں چوکتے نہیں، ’امریکہ سے مگر تعلق پاکستان سے ہے‘۔۔۔ ’مسلمہ؟‘ چونکہ احاطہ ِمسجد ِاقصیٰ صرف مسلمانوں کے داخلے کے لیے مختص ہے، اس لیے چیک پوسٹ پر متعین گارڈز یقینی بناتے ہیں کہ اندر صرف مسلمان ہی داخل ہوں۔۔۔ میرے ہاں کہنے پر گارڈ ’مرحبا یا اُختی، مرحبا‘ (اے میری بہن خوش آمدید) کہتے ہوئے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔
احاطے میں داخل ہو کر پہلی نظر قبتہ الصخرہ پر پڑتی ہے جہاں سے روایات کے مطابق نبی ِکریم صل اللہ و علیہ وسلم معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے۔۔۔ سنہرے گنبد والا قبتہ الصخرہ (قبتہ معنی گنبد، صخرہ معنی چٹان) دنیا بھر میں یروشلم کی پہچان ہے جسے 691ء عیسوی میں اموی خلیفہ عبدالمالک کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔۔۔ قبتہ الصخرہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر سات محرابوں اور کالے گنبد والی نسبتا سادہ سی مسجد ِاقصیٰ (جو قبلہ ِاول کی نسبت سے مسجد ِقبلی کہلاتی ہے)، موجود ہے۔۔۔ بہت سے لوگ قبتہ الصخرہ اور مسجد ِاقصیٰ کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہیں اور سنہرے گنبد اور شان و شوکت والے قبتہ الصخرہ کو ہی مسجد ِاقصیٰ سمجھتے ہیں۔۔۔ یہاں یہ ذکر بھی کرتی چلوں کہ مسجد ِاقصیٰ محض ایک مسجد کا نام نہیں بلکہ 36 ایکڑ پر پھیلا یہ تمام احاطہ جس میں مسجد ِقبلی، قبتہ الصخرہ، مسجد ِبراق اور قبتہ السلسلہ سمیت دیگر کئی عمارتیں شامل ہیں، انہی تمام عمارتوں کا مجموعہ ’مسجد ِاقصیٰ‘ اور ’حرم الشریف‘ کہلاتا ہے۔۔۔
حرم الشریف کا یہی احاطہ اسرائیل و فلسطین کے یہودی اور مسلمانوں کے درمیان تنازعے کی بنیادی وجہ بھی ہے۔۔۔ یہودیوں کی پہلی عبرانی بائبل Book of Genesis کے مطابق جس ٹیلے پر قبتہ الصخرہ موجود ہے اور جسے یہودی Mount Moriah کہتے ہیں، وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام قربانی کی غرض سے حضرت اسحقٰ علیہ السلام کو لے کر گئے تھے۔۔۔ یہودی خدا کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قربانی کے اس عمل کو Binding of Isaac یا Akedah ’عقیدہ‘ کا نام دیتے ہیں۔۔۔ یہودی عقیدے کے تین بڑے Patriarchs یا بزرگ ہستیوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحقٰ علیہ السلام (حضرت ابراہیم کے بیٹے) اور حضرت یعقوب علیہ السلام (حضرت اسحقٰ کے بیٹے) کا شمار کیا جاتا ہے۔۔۔
واپس چلتے ہیں قبتہ الصخرہ کی جانب جہاں سے میں مسجد ِاقصیٰ کی طرف جا رہی تھی۔۔۔ اب میری آنکھوں کے سامنے قبلہ ِاول تھا، بارش میں دھلا دھلا اور صبح صادق کے اندھیرے میں جگمگاتا ہوا قبلہ ِاول، مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ ِمنورہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام جس کی بنیاد (احادیث کے مطابق) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحقٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔۔۔
میں جوتے باہر لکڑی کے ریک میں رکھتے ہوئے مسجدِ قبلی میں داخل ہوئی جہاں نمازیوں کی معقول تعداد موجود تھی۔۔۔ خواتین مسجد کے دروازے کے ساتھ سیدھے ہاتھ پر بنے گوشے میں پانچ چھ صفوں میں بیٹھی تھیں۔۔۔ اکثریت عرب خواتین کی تھی مگر مجھے ترک اور انڈونیشین چہرے بھی دکھائی دئیے۔۔۔ سوا پانچ ہو چکے تھے اور جماعت کھڑی ہونے میں دس منٹ باقی تھے۔۔۔ مرد و خواتین نوافل کی ادائیگی میں مشغول تھے۔۔۔
فجر کی ادائیگی کے بعد نمازی تلاوت ِقرآنِ کریم میں مصروف ہو گئے۔۔۔ منبر کے پاس کچھ مرد حضرات ایک عالم کے گرد گھیرا ڈالے ’تعلیم‘ (درس) حاصل کر رہے تھے۔۔۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں خاتون ہونے کے ناطے مردوں کے حصے میں جانے پر ٹوکا نہ جائے، مگر ایسا نہ ہوا۔۔۔ یہاں یہ بات قابل ِذکر ہے کہ مسجد میں کہیں کوئی رکاوٹ نہیں لگائی گئی، گو کہ مرد و خواتین کی نماز کی ادائیگی کے لیے الگ حصے مختص ہیں، مگر مرد بآسانی خواتین جبکہ خواتین بآسانی مردوں والے حصے میں آجا سکتی ہیں، اس سلسلے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔۔۔ میں مسجد کے کونے کونے کو کیمرے میں محفوظ کرنے لگی۔۔۔
تصویریں کھینچ کر واپس خواتین کے حصے میں لوٹی تو چند خواتین سے سلام دعا ہوئی۔۔۔ مقامی فلسطینی خواتین یہ جان کر خوش ہوئیں کہ میں پاکستانی ہوں، انکی آنکھوں میں جیسے پاکستان کا نام سن کر جگنو سے چمک گئے، وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور میرے گالوں پر بوسوں سے محبت کا اظہار کر رہی تھیں اور میں عربی کے چند الفاظ کے سہارے ان کی ممنون ہو رہی تھی۔۔۔
یروشلم سے تعلق رکھنے والی مریم کی انگریزی شستہ تھی، اس نے تعارف کے بعد مجھے بتایا کہ پیچھے کونے میں خاموش بیٹھی خاتون غریب، مظلوم اور بے سہارا ہے، غزہ سے بمشکل یہاں پہنچی ہے۔۔۔ اس کا شوہر اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں چند سال پہلے ہلاک ہو گیا تھا اور اب اس کے گھر کا چولہا کئی کئی دن نہیں جلتا۔۔۔ اس عورت کی گود میں بیٹھا ایک لاغر سا چھ سالہ بچہ کینسر کے موذی مرض کا شکار ہے، اگر آپ چاہیں تو اس کی مدد کر سکتی ہیں۔۔۔ اگلے چند روز مسجد ِاقصیٰ میں نمازِ فجر کے دوران یہی طریق دیکھا کہ مستحق خواتین اور حضرات فجر کے بعد ایک کونے میں بیٹھ جاتے ہیں اور مخیر خواتین و حضرات ان کی مدد کر دیتے ہیں۔۔۔
گھڑی دیکھی تو ساڑھے چھ بج رہے تھے اور باہر جھٹ پٹا ہو چلا تھا۔۔۔ مسجد ِقبلی سے نکلتے ہوئے نظر سیدھی قبتہ الصخرہ پر کچھ یوں ٹھہرتی ہے کہ انسان مبہوت ہو جاتا ہے۔۔۔ اس سنہری گنبد میں یقینا کوئی کشش کوئی جادو ہے جس نے میرے چلتے قدم روک دئیے اور میں کتنی ہی دیر ایک ٹک اسی گنبد کو تکتی رہی۔۔۔ سیڑھیوں پر بیٹھی بوڑھی بھکارن کا سوال مجھے واپس لے آیا، میں نے جلدی سے اسے کچھ ریزگاری پکڑائی اور تیزی سے قدم اٹھاتی گاڑی تک پہنچی جہاں عبد القادر میرا منتظر تھا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔