پاکستان میں پانی کی شدید قلت اور آنے والے دنوں میں اس کے سبب جو منظر نامہ ہو گا وہ زیادہ تر ماہرین کے لئے تشویش کا سبب ہے ۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ کے قمر عباس جعفری نے فارمرز ایسوسی ایشن کی ڈائریکٹر رابعہ سلطان اور آبی امور کے ماہر اور پاکستان کی وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکریٹری مرزا حامد حسن سے گفتگو کی۔
رابعہ سلطان کا کہنا تھا کہ ملک میں 1976کے بعد سے کوئی نیا بند تعمیر نہیں ہوا ہے اور اب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پینے کے پانی کی شدید قلت سے قطع نظر پاکستان کی زراعت کے لئے شدید قلت ہے جو کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثت رکھتی ہے اور اگر فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات نہ کئے گئے تو پھر گندم تک باہر سے منگوانی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں چین اور بھارت جیسے ملک موجود ہیں جو دھڑا دھر بند بنارہے ہیں۔ خاص طور پر بھارت اپنے تو اپنے پاکستان کے دریاؤں پر بھی بند بنا رہا ہے اور سندھ طاس پر اس کا بطور خاص بہت زور ہے۔ اسلئے ہمیں اس سلسلے میں سنجیدہ منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔
مرزا حامد حسن کا کہنا تھا کہ صورت حال خطرناک حد تک خراب ہوتی جارہی ہے اور اب پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں آتا جا رہا ہے جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ انہوں کہا کہ ماحولیات کی تبدیلی بھی ہمارے آبی وسائل کو متاثر کر رہی ہے اور اب یہ مسئلہ ہماری بقاء کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کالا باغ ڈیم کے متنازہ ہونے کا سبب کیا ہے، انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ ڈیم سیاست اور صوبوں کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا شکار ہوا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پر اس سلسلے میں افہام و تفہیم پیدا کی جائے اور قومی مفادات کے پیش نظر منصوبہ بندی کی جائے۔