امریکہ کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کے اہداف کے خلاف کارروائی میں لائی گئی تیزی کے دوران، ’امریکہ کا طویل عرصے تک، بڑی سطح کےلڑاکا زمینی حملوں کا کوئی ارادہ نہیں‘، جیسا کہ افغانستان یا عراق میں کیا گیا تھا۔
وزیر دفاع ایش کارٹر نے منگل کے روز کہا کہ ’حکمت عملی کی تبدیلی میں زیادہ فضائی حملے اور ممکنہ زمینی کارروائی شامل ہوگی‘۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری، ایرک شُلز نے بدھ کے روز کارٹر کے بیان کی حمایت میں یہ واضح کیا کہ ’اگر ضروری ہوا تو امریکہ (شام میں) پارٹنرز کے ساتھ مل کر محدود نوعیت کی کارروائیاں کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔‘
عراق میں امریکی قیادت والے اتحاد کے ترجمان، کرنل اسٹیو وارن نے کہا ہے کہ ’ہم اہم شہروں پر مکمل طرز کے بڑے حملوں یا کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم چھاپوں کی بات کر رہے ہیں‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑی لڑاکا کارروائیاں کی جائیں گی، جس میں ہزاروں امریکی یا لاکھوں عراقیوں کو شامل کیا جائے گا‘۔
منگل کے روز کانگریس کی سماعت کے دوران، وزیر دفاع کارٹر نے کہا تھا کہ گذشتہ ہفتے کی طرح مزید چھاپے مارے جاسکتے ہیں۔ اُنھوں نے کُرد افواج کے مشورے پر امریکی فوجوں کی جانب سے مل کر عراق میں چھاپہ مار کر تقریباً 70 یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے بارے میں اشارہ کیا، جس میں ایک امریکی کمانڈو ہلاک ہوا۔