|
بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہمسایہ ملک ترکیہ کو اس بڑے سوال کا سامنا ہے کہ وہ خانہ جنگی کے دوران آنے والے 30 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کو کس طرح وطن واپس بھیجے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر ترکیہ میں موجود شامی پناہ گزینوں کو واپس ان کے وطن بھیجنے کے لیے کم از کم ایک سال کی مدت درکار ہوگی۔
مائیگریشن اینڈ اسائلم ریسرچ سینٹر کے سربراہ اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے رکن میتن چوراباتر کا کہنا ہے کہ شامی مہاجرین اور تارکین وطن کو واپسی میں وقت لگنے کی ایک بنیادی وجہ خطے میں موجود خطرات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام میں اب بھی کئی علاقوں میں کشیدگی ہے اور حکومت کے خاتمے سے پیدا ہونے والا خلا پوری طرح دور نہیں ہوا ہے۔ مختلف علاقوں میں موجود دھماکہ خیز مواد اور بارودی سرنگیں بڑے جانی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
ان کے بقول ایسے حالات میں مہاجرین کی واپسی کے لیے عالمی معیارات کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔
میتن چوراباتر کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کے مطابق مہاجرین کی واپسی کے لیے بہت زیادہ منصوبہ بندی اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔ امداد کی وصولی کے لیے ایک مربوط اور سازگار ماحول تشکیل پانے کے بعد بھی ترکیہ میں موجود شامی مہاجرین کی وطن واپسی کم از کم ایک سال میں مکمل ہوسکے گی۔
ترکیہ کے وزیرِ داخلہ علی یرلی قایا کے مطابق 30 نومبر 2024 تک ترکیہ میں موجود غیر ملکیوں کی تعداد 41 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں لگ بھگ 30 لاکھ شامی ہیں جب کہ 13 لاکھ سے زائد مستقل رہائشی ہیں۔ اس کے علاوہ دو لاکھ سے زائد غیر ملکیوں بین الاقوامی قوانین کے مطابق تحفظ حاصل ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکیہ میں بسنے والے زیادہ تر شامی پناہ گزینوں کا تعلق حلب سے ہے اور ان کی تعداد تقریباً ساڑھے 12 لاکھ ہے۔
ادلب سے تعلق رکھنے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار اور دیر الزور سے آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے اور باقی شام کے دیگر علاقوں سے ترکیہ آئے ہیں۔
پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے درکار وسائل اور منصوبہ بندی کے علاوہ ایک اور وجہ ایسی ہے جس کے باعث ترکیہ سے پناہ گزینوں کی واپسی بہ آسانی ممکن نہیں ہوگی۔
ترکیہ میں گزشتہ 15 سال سے بسنے والے شامی پناہ گزینوں کی زندگی اب ترکیہ میں ایک ڈگر پر چل پڑی ہے۔ ان کے بچے اور نوجوان ترک اسکولوں میں پڑھے ہیں، عربی ان کی ثانوی زبان ہوگئی ہے اور اس طویل عرصے میں ایک پوری نسل تیار ہوچکی ہے جس نے ہوش سنبھالنے تک کبھی شام دیکھا ہی نہیں۔
ترکیہ میں پناہ گزینوں پر کام کرنے والے محقق برچک سیل کا کہنا ہے کہ 15 سال سے ترکیہ میں مقیم شامی پناہ گزینوں میں ایک بڑی تعداد اب واپس نہیں جانا چاہتی۔
ان کے مطابق خاص طور پر جوانوں میں یہ رجحان بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان نوجوانوں کو اپنی مادری زبان عربی بھی نہیں آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شامیوں میں پختہ اور بڑی عمر کے وہی افراد وطن جانے کے لیے زیادہ پرجوش ہیں جنھوں نے اپنی مادری زبان کو محفوظ رکھا ہے اور جن کی شام سے کوئی نہ کوئی یاد وابستہ ہے۔ گزشتہ 15 سال میں بڑی ہونے والی نسل تو ترکیہ ہی کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔
یہ خبر وی او اے کی کردش سروس سے لی گئی ہے۔