سڑکوں کی بندش نہ اسٹیڈیم جانے والے تماشائیوں کے لیے ہدایتی پیغامات، کرکٹ شائقین کے لیے نہ کار پارک کرنے کی ہدایات اور نہ ہی اسٹیڈیم پہنچانے کے لیے خصوصی بسوں کا انتظام لیکن پھر بھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کشمیر پریمیئر لیگ (کے پی ایل) کے انعقاد نے کرکٹ شائقین کو تفریح کا بھرپور موقع دیا۔
کھیلوں کے اس میلے کا انعقاد اگست کے اوائل میں مظفر آباد شہر کے مظفر آباد کرکٹ اسٹیڈیم میں ہوا تھا اور ہمیں بھی گراؤنڈ میں بیٹھ کر ایک میچ دیکھنے کا موقع ملا۔
لاہور سے براستہ ایم ٹو موٹر وے اسلام آباد اور پھر ہزارہ موٹروے سے مانسہرہ کے لیے نکلے تو سر سبز پہاڑوں کے دامن سے گزرتی سڑک کے دونوں اطراف بلند و بالا پہاڑ خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ کے پی ایل کا میچ دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کا انعقاد یورپ کے کسی چھوٹے سے ملک میں کیا جا رہا ہے۔ جہاں سیاح دنیا کے ہنگاموں کو چھوڑ کر قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے پہنچتے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے گڑھی حبیب اللہ کے راستے جب مظفر آباد پہنچے تو وہاں حیران کن طور پر کے پی ایل کی وجہ سے لگ بھگ تمام ہوٹلز بک ہو چکے تھے اور کمرے دستیاب نہیں تھے۔ بڑی مشکل سے ایک کمرہ مہنگے داموں لینے میں کامیاب ہوئے۔
مظفر آباد ٹائیگرز اور میر پور رائلز کے درمیان میچ دیکھنے کے لیے جب اسٹیڈیم کا رُخ کیا تو اسٹیڈیم جانے والے دونوں راستوں پر شدید ٹریفک جام تھا۔ ٹریفک پولیس اہل کار ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں بے بس دکھائی دے رہے تھے۔
ٹریفک جام سے نکلے اور ایوانِ صدر کے باہر سے ہوتے ہوئے اسٹیڈیم کے قریب پہنچے تو چند سیکیورٹی اہل کار دکھائی دیے جن سے اسٹیڈیم کا راستہ پوچھنے کے بعد جب گراؤنڈ کے قریب پہنچے تو بغیر کسی مبالغہ آرائی کے پہاڑوں کے دامن میں قائم اسٹیڈیم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کشمیریوں کا کرکٹ کے ساتھ لگاؤ اور اس ایونٹ کے انعقاد کی خوشی ان کے چہروں پر عیاں تھی۔ کرونا وبا کی وجہ سے مخصوص تعداد میں تماشائیوں کو اسٹیڈیم آنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اسٹیڈیم سے متصل ہاکی اسٹیڈیم میں گاڑی پار کرنے کے بعد اندر جانے کے لیے مخصوص سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے جو کسی بھی صورت اتنے سخت نہیں تھے جو کہ کراچی یا لاہور میں پاکستان سپر لیگ کے دوران کیے جاتے ہیں۔
میڈیا کے لیے مخصوص پویلین میں پہنچنے تک صرف ایک جگہ پر سیکیورٹی چیک کی گئی جب کہ اس دوران نہ تو پی ایس ایل کی طرح بار بار تلاشی لی گئی اور نہ ہی شناختی کارڈ چیک کیا گیا۔
اسٹیڈیم پہنچنے پر ایک منٹ کے لیے ایسا ہی لگا کہ ہم لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آئے ہیں۔ لیکن جب وہاں کیے گئے انتظامات دیکھے تو احساس ہوا کہ سارے انتظامات جلدی میں کیے گئے ہیں۔
اسٹیڈیم میں ہر طرف پرجوش تماشائیوں کا شور اور چھکے چوکوں کی آوازیں تھیں۔ گراؤنڈ میں کمنٹری بھی پرجوش تھی اور بڑے بڑے ساؤنڈ سسٹمز پر وقفے وقفے سے بجنے والا میوزک تماشائیوں کا جوش بڑھا رہا تھا۔
مظفر آباد ٹائیگرز اور میر پور رائلز کے درمیان میچ میں شائقین محمد حفیظ کی ٹیم مظفر آباد ٹائیگرز کی جارحانہ بیٹنگ سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ جس نے 20 اوورز میں 227 کا پہاڑ جیسا ہدف شعیب ملک کی میر پور رائلز کو دیا۔
میر پور رائلز کی اننگز کی شروعات سے پہلے ہمارے سمیت شائقین کا بھی یہ ہی خیال تھا کہ ٹی ٹونٹی میں 200 سے اوپر کا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم جب میر پور رائلز نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے رنز اتنی تیزی سے بنے کہ میچ سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو گیا اور یوں جو شائقین یہ میچ دیکھنے اسٹیڈیم آئے تھے اُن کے لیے تو ایک یادگار موقع بن گیا۔
میچ دیکھتے ہوئے شائقین کے جوش اور جذبے کو دیکھ کر ایسا لگا کہ پاکستان کے لوگوں کی طرح مظفر آباد کے لوگ بھی کرکٹ کے دیوانے ہیں اور وہ اس ایونٹ کے انعقاد سے بے حد خوش ہیں اور ٹیموں میں کشمیری کھلاڑیوں کو شامل کیے جانے پر وہ فخر محسوس کر رہے ہیں۔
کے پی ایل کے ضوابط کے تحت ہر ٹیم میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین کشمیری کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا تھا۔
میچ دیکھتے ہوئے جب وہاں موجود شائقین سے بات چیت کی تو اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف ایونٹ کے انعقاد سے خوش تھے بلکہ وہ فخر محسوس کر رہے تھے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالات بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں۔
بھارت نے اس ایونٹ کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے بھی رابطہ کیا تھا۔ کرکٹ کی عالمی تنظیم نے کے پی ایل سے متعلق کہا تھا کہ ان کا یہ دائرہ اختیار نہیں کہ اس ایونٹ کو تسلیم نہ کیا جائے۔
کشمیری میچ کے دوران جہاں کئی نامور بلے بازوں اور بالروں کی کارکردگی پر خوش تھے وہیں وہ اپنے مقامی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر زیادہ پرجوش انداز میں اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر نعرے بھی لگا رہے تھے۔