وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان اکثریتی ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر عائد کردہ بندش کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں جمعے کے روز سے اب تک امریکہ میں داخل ہونے کے متمنی چند ہی افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ترجمان، شان اسپائسر نے پیر کے دِن اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اب تک صرف 109 افراد کو امریکہ آنے سے روکا گیا ہے، حالانکہ پابندی عائد ہونے کے بعد کے 24 گھنٹوں کے اندر کُل 325،000 غیر ملکی شہری ملک میں داخل ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ 109 افراد کو ’’عارضی زحمت اٹھانی پڑی۔‘‘ زیر حراست لیے گئے اِن افراد کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ تمام امریکیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی یہ ایک چھوٹی سی قیمت ہے۔
ٹرمپ نے پیر کے روز ٹوئٹر پر ایک پیغام میں اپنے انتظامی حکم نامے کا دفاع کیا، جس کے تحت تمام مہاجرین کے امریکہ میں داخلے پر 120 دِنوں تک کی بندش لاگو کی گئی ہے، جب کہ شامی مہاجرین پر غیر معینہ مدت تک پابندی عائد رہے گی۔
حکم نامے کے تحت عراق، ایران، لیبیا، شام، سوڈان، یمن اور صومالیہ کے شہریوں پر تین ماہ کے عرصے کے لیے امریکہ کی حدود میں داخلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔
ٹرمپ نے اصرار کیا ہے کہ پابندی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا اقدام نہیں ہے، برعکس اس کے اُنھوں نے اِسے احتیاطی اقدامات کے سلسلے کا پہلا قدم قرار دیا ہے، جس کا مقصد امریکہ کو محفوظ بنانا ہے۔
تاہم، ’کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز‘ کی سربراہ، لینا مصری نے پیر کے روز پابندی کو ’’مسلمانوں کو خارج کرنے کا حکم نامہ‘‘ قرار دیا، اور کہا کہ اُن کی تنظیم دو مقدمات دائر کر رہی ہے، جن کی مدد سے انتظامی حکم ناموں کو چیلنج کیا جائے گا۔