وائٹ ہاؤس نے امریکی ایوانِ نمائندگان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جاری مواخذے کی کارروائی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹ سپلونی نے ایوانِ نمائندگان کی جودیشری کمیٹی کے سربراہ جیرولڈ نیڈلر کو خط لکھا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف شروع کی گئی کارروائی بے بنیاد ہے۔ لہذٰا آئندہ ہفتے ہونے والی سماعت میں وائٹ ہاؤس اس میں شامل نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایواںِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ایما پر مواخذے کا متن جاری کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ اس سے قبل جوڈیشری کمیٹی نے کسی گواہ کا بیان قلمبند نہیں کیا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم اس غیر شفاف تحقیقات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ان کے بقول اسپیکر نینسی پیلوسی طے شدہ نتائج کے حوالے سے ذہن بنا چکی ہیں۔ لہذٰا ہمیں وہاں گواہان بلانے کا کوئی موقع نہیں دیا جائے گا۔
البتہ نیڈلر نے وائٹ ہاؤس کی تنقید پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے عوام اپنے صدر کا جواب سننے کا حق رکھتے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے جمعرات کو ایوانِ نمائندگان کی جوڈیشری کمیٹی کو صدر ٹرمپ کے خلاف الزامات کی چارج شیٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق جمعرات تک جوڈیشری کمیٹی صدر کے خلاف باقاعدہ الزامات کی دستاویز پر کام مکمل کر لے گی۔ جس کے بعد کرسمس سے قبل ایوانِ نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کے حوالے سے ووٹنگ کا امکان ہے۔
وائٹ ہاؤس کے کونسل پیٹ سپلونی نے خط میں مزید کہا کہ ڈیمو کریٹ اراکین اس غیر ضروری کارروائی سے پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔ لہذٰا مزید الزامات لگا کر وقت ضائع نہ کریں۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں ایوانِ نمائندگان جلد از جلد اپنی کارروائی مکمل کر کے معاملہ سینیٹ کے حوالے کریں۔ جہاں انہیں شفاف ٹرائل ہونے کا یقین ہے۔ خیال رہے کہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکنز کو اکثریت حاصل ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی ہاؤس جوڈیشری کمیٹی میں شامل ری پبلکنز اراکین کو جمعے تک کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ گواہوں کے نام دیں۔ جس پر ان اراکین نے آٹھ گواہان کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن میں سابق صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر، صدر ٹرمپ کی یوکرین کے صدر کو کی جانے والی ٹیلی فون کال سامنے لانے والے 'وسل بلور' جبکہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف شامل ہیں۔
ری پبلکنز اراکین نے اس سے قبل ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی میں بھی ان افراد کو بلانے کا کہا تھا۔ البتہ ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ مبصرین یہی امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ جوڈیشری کمیٹی بھی ری پبلکنز اراکین کی یہ درخواست مسترد کر دیں گے۔
البتہ جیرولڈ نیڈلر نے ان گواہوں کو بلانے کے حوالے سے ری پبلکنز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ "صدر ٹرمپ مواخذے کی کارروائی میں شامل ہی نہیں ہوئے تو وہ اسے غیر شفاف کیسے کہہ سکتے ہیں۔"
جوڈیشری کمیٹی نے صدر ٹرمپ کو ایوانِ نمائندگان میں پیش ہو کر گواہی دینے کے لیے جمعے تک کی مہلت دی ہے۔ لیکن اس سے قبل صدر ٹرمپ ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی میں نہ صرف پیش ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کو بھی ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ اس کارروائی میں ایوانِ نمائندگان سے کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔
جوڈیشری کمیٹی صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے لیے پیر کو سماعت کرے گی۔ کمیٹی مواخذے کی کارروائی کے متن منظور کرانے کے بعد اسے ووٹنگ کے لیے ایوانِ نمائندگان میں پیش کرے گی۔
ایوانِ نمائندگان نے اگر کثرت رائے سے صدر ٹرمپ کے مواخذے کی منظوری دے دی تو یہ معاملہ امریکی سینیٹ میں بھجوایا جائے گا۔ جہاں کے اکثریتی ری پبلکن اراکین سینیٹ صدر ٹرمپ کو عہدے سے نہ ہٹانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کیوں ہو رہی ہے؟
امریکہ کے صدر پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ سابق امریکی نائب صدر اور 2020 کے صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے متوقع حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائیں۔
صدر ٹرمپ پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے دباؤ ڈالنے کے لیے یوکرین کی فوجی امداد روکنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ البتہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بیانات اور ٹوئٹس کے ذریعے اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کو مذاق اور انتقامی کارروائی قرار دیتے رہے ہیں۔