ان اطلاعات کے بعد کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو نارتھ امریکن فری ٹریڈ اگریمنٹ (نیفٹا) سے الگ کرنے کے لیے انتظامی حکم نامے پر غور کر رہے ہیں، وائٹ ہاؤس نے بدھ کو کہا کہ ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو کے راہنماؤں سے فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد ایسا کوئی اقدام نا اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔
صدر بننے کی مہم میں شامل ہونے کے بعد سے ٹرمپ نے تواتر کے ساتھ ملک کے تجارتی سمجھوتوں اور خاص طور پر ’نیفٹا‘ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سمجھوتے پر 1994 میں دستخط ہونے کے بعد یہ "نقصان دہ" ثابت ہوا جس کی وجہ سے کئی امریکی ملازمتیں میکسیکو منتقل ہو گئیں۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ "صدر نے اس بار اس معاہدے کو منسوخ نا کرنے پر اتفاق کیا اور ۔۔۔۔ تین ملکوں کے لیے یکساں فائدے کے بارے میں فوری مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو اور میکسیکو کے صدر انریک پینا نیٹو کے ساتھ کام کرنا ٹرمپ کے لیے اعزاز کی بات ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ (مذاکرات کا) عمل ان کے تینوں ملکوں کو مضبوط بنائے گا۔
میکسیکو کی حکومت نے ایک بیان میں ٹرمپ اور پینا نیٹو کے درمیان فون پر ہونے والے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ راہنماؤں نے نیفٹا کو برقرار رکھنے کے فوائد اور کینیڈا کے ساتھ مل کر تینوں ملکوں کے مفاد کے لیے کامیاب مذکرات کرنے پر اتفاق کیا۔
قبل ازیں جمعرات کو کینیڈا کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ کینیڈا "کسی بھی وقت مذاکرت کی میز پر آنے کے لیے تیار ہے۔"
ٹرمپ نے رواں ہفتہ کینیڈا کے ’’غیر منصافانہ تجارتی طریقہ کار‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے کینیڈا کو لکڑی کی برآمدات پر 20 فیصد کا نیا محصول عائد کرنے کا حکم جاری کیا۔
میکسیکو کے کئی عہدیداروں نے نیفٹا سے متعلق بے اطمیانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کارخانون اور صنعتوں میں سرمایہ کاری میں اضافے کے باوجود اس کی وجہ سے اقتصادی شرح نمو سست رہی۔