وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وکلا رواں ہفتے مواخذے کے لیے ہونے والی سماعت میں شرکت نہیں کریں گے۔
ایوانِ نمائندگان کی جوڈیشل کمیٹی کی طرف سے صدر ٹرمپ کو اتوار تک کا وقت دیا گیا تھا کہ وہ بتائیں کہ کیا وہ بدھ کے روز ہونے والی سماعت کے لیے اپنا وکیل بھجوا رہے ہیں یا نہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹ سپلونی نے جوڈیشل کمیٹی کے چیئرمین جیرولڈ نڈلر کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "ہم سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ ہم کسی سماعت میں حصّہ لیں گے۔ کیوں کہ اب تک گواہوں کی نشاندہی نہیں کی گئی۔"
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اب تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا جوڈیشل کمیٹی اضافی سماعتوں کے ذریعے امریکی صدر کو منصفانہ عمل کے ذریعے انصاف کا موقع فراہم کرے گی یا نہیں۔
سپلونی نے واضح کیا کہ بدھ کو مواخذے کی سماعت میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہو گا البتہ انہوں نے مستقبل قریب میں ہونے والی سماعتوں میں شرکت سے انکار نہیں کیا۔ تاہم ان کی طرف سے اشارہ دیا گیا کہ پہلے ڈیموکریٹس کو سماعت کے طریقہ کار میں رعایتیں دینا ہوں گی۔
رواں ہفتے ڈیموکریٹس امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف ہونے والی مواخذے کی کارروائی میں حقائق کی تلاش کے بعد اب امریکی صدر کی یوکرین کے ساتھ کی جانے والی مبینہ بد عنوانی سے متعلق الزامات عائد کرنے جا رہے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق جوڈیشل کمیٹی کے اسٹاف کی طرف سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے سماعت میں شرکت کرنے سے انکار پر کوئی مؤقف نہیں دیا گیا۔ صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی مواخذے کی کارروائی میں پہلی بار براہ راست شرکت ہونا تھی۔
ڈیمو کریٹ ڈان بیئر نے وائٹ ہاؤس کے خط پر ردِ عمل دیتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ امریکی صدر اور ان کے ریپبلکن ساتھیوں کی جانب سے کانگریس میں کی جانے والی ایک بھی شکایت مستند نہیں ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ سابق امریکی نائب صدر اور 2020 کے صدارتی انتخابات میں ان کے متوقع حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائیں۔
صدر ٹرمپ پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے دباؤ ڈالنے کے لیے یوکرین کی فوجی امداد روکنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ البتہ صدر ٹرمپ اپنے بیانات اور ٹوئٹس کے ذریعے مواخذے کی کارروائی کو مذاق اور انتقامی کارروائی قرار دیتے رہے ہیں۔
اس ضمن میں مواخذے کی کارروائی میں 25 جولائی کو صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کی ٹیلی فونک گفتگو پر بھی گواہان سے سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔