|
ویب ڈیسک—بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے طلبہ رہنما ناہد اسلام اس وقت مقامی خبروں میں چھائے ہوئے ہیں اور وہ عبوری حکومت کے قیام میں بھی نمایاں نظر آ رہے ہیں۔
ناہد اسلام بنگلہ دیش میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کے منتظم اور کوٹہ نظام کے خلاف طلبہ تحریکِ کے روح رواں ہیں۔ ان کی قیادت میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی تحریک وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی ہے۔
بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج کی بدولت شیخ حسینہ کو نہ صرف عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا بلکہ وہ ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی ہیں۔
ناہد اسلام ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے طالب علم ہیں جو انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ملک بھر میں 'امتیاز کے خلاف طلبہ کی تحریک' کے قومی سطح کے منتظم ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم 'فرنٹ لائن ڈفینڈرز' کے مطابق کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک کے دوران ناہد اسلام کو دو مرتبہ حراست میں لیا گیا۔
ناہد نے 20 جولائی کو دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے انہیں 'اغوا' کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا۔ تاہم پولیس ان کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔
ناہد کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں چند پولیس اہلکاروں کو انہیں گاڑی میں بٹھاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
اس کے بعد ناہد نے 26 جولائی کو بھی یہ دعویٰ کیا کہ انہیں سادہ لباس افراد نے اسپتال میں اس وقت حراست میں لیا جب وہ زیرِ علاج تھے۔
پیر کو وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد ناہد اسلام نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئندہ 24 گھنٹے میں عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔
ناہد اسلام بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے منگل کو آرمی چیف جنرل وقار الزماں سے ملاقات بھی کریں گے اور انہوں نے عبوری حکومت کے لیے بطور نگران نوبیل انعام یافتہ معاشی ماہر محمد یونس کا نام پیش کیا ہے۔
محمد یونس مقامی گرامین بینک کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں جنہیں ملک میں غربت کے خاتمے کے اقدامات پر 2006 میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے پروگرام سے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا تھا۔
ناہد اسلام نے منگل کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ فوج کی حمایت یافتہ یا فوج کی قیادت میں کسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک سے شیخ حسینہ کے استعفے تک
بنگلہ دیشی طلبہ کا احتجاج جون 2024 میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔
حکومت کے ناقدین کا الزام تھا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نافذ کوٹے کو اپنے سیاسی حامیوں اور کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے کوٹے کے خاتمے کے لیے مظاہروں کا آغاز کیا۔ جولائی کے وسط میں جب تحریک نے شدت اختیار کی تو سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کرتے ہوئے شورش زدہ شہروں میں کرفیو لگا دیا۔
پرتشدد مظاہروں کے دوران لگ بھگ تین سو اموات ہوئیں۔ اگرچہ 21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ احتجاجی لہر برقرار رہی اور پیر کو وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو عہدے سے استعفیٰ دے کر پڑوسی ملک بھارت منتقل ہونا پڑا۔
فورم