|
سندھ حکومت کے اعتراض کے بعد وزیرِ اعظم کی جانب سے چیئرمین انڈس ریور سسٹم (ارسا) کی تقرری کا فیصلہ واپس لیے جانے کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض ماہرین اسے مخلوط حکومت بنتے ہی حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان اختلافات کی پہلی کڑی قرار دے رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل ظفر محمود کو چیئرمین (ارسا) تعینات کیا تھا، تاہم سندھ حکومت کے شدید احتجاج کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے آئین کی کھلی خلاف ورزی، صوبوں کے حقوق غضب کرنے اور وفاق کو تباہ کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
متنازع آرڈیننس
وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ کے مطابق وزیر اعظم کے ساتھ وزیر اعلی سندھ نے فون پر رابطہ کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
اُن کے بقول وزیرِ اعلٰی سندھ نے مؤقف اختیار کیا کہ ارسا چیئرمین کی تعنیاتی روٹیشن بنیادوں پر ارسا میں صوبوں کے ارکان میں سے ہی ہو سکتی ہے اور وزیرِ اعظم نے اس کو تسلیم کیا ہے۔
سابق چیئرمین ارسا زاہد جونیجو کہتے ہیں کہ نگراں حکومت کے دور میں ایک متنازع آرڈیننس منظور کیا گیا جس کے تحت چیئرمین ارسا کی تقرری کا اختیار وزیرِ اعظم کو دے دیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے قبل صوبے یا وفاق میں ارسا کے کسی رُکن کو چیئرمین تعینات کیا جاتا تھا اور اس حوالے سے چاروں صوبوں کو مرحلہ وار چیئرمین ارسا کا عہدہ ملتا تھا۔
اُن کے بقول مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین ارسا کو ایسے اختیارات دے دیے گئے جس سے ارسا کی اتھارٹی 'ون مین شو' میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔
زاہد جونیجو کے بقول اگر اس آرڈیننس پر عمل ہوا تو ارسا اتھارٹی کسی کام کی نہیں رہے گی اور سارے اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہوں گے جس سے لامحالہ وفاق اور صوبوں کے درمیان تناؤ رہے گا۔
اُن کے بقول ان اختلافات سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس آرڈیننس کو ختم کیا جائے۔
تیرہ مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نکتۂ اعتراض پر پیپلز پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی نوید قمر نے بھی وزیرِ اعظم کے اس اقدام پر تنقید کی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے چیئرمین ارسا کی تعیناتی نگراں حکومت کے دور میں جاری کیے گئے آرڈیننس کی روشنی میں کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے جلد بازی کرتے ہوئے نگراں حکومت کے متنازع آرڈیننس کے تحت یہ تعیناتی کر دی جس سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور ارسا
قیامِ پاکستان کے 44 برس بعد چاروں صوبوں اور وفاق میں پانی کی تقسیم کے طریقۂ کار پر اتفاق ہوا تھا۔
سن 1991 میں صوبوں اور وفاق کے درمیان 'واٹر اکارڈ' پر اتفاق کے بعد اس معاہدے کی روشنی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی یعنی ارسا ایکٹ 1992 منظور ہوا جس کے تحت صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا اختیار ارسا کے پاس ہے۔
ارسا اتھارٹی پانچ ارکان پر مشتمل ہے جس میں ہر صوبے سے ایک، ایک رکن اور ایک وفاق کا رکن تین برسوں کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔
ارسا چیئرمین کا عہدہ مرحلہ وار ایک، ایک برس کے لیے چاروں صوبوں اور وفاق کے ارسا میں تعنیات رکن کو ملتا ہے۔ ارسا ایکٹ کے تحت پہلے ایک برس کے لیے بلوچستان اس کے بعد ترتیب وار خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ سے ارسا میں رکن چیئرمین ارسا مقرر ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کے بطور نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ارسا ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس کرایا تو اس وقت بلوچستان سے ارسا کے رُکن عبدالحمید مینگل بطور چیئرمین کام کر رہے تھے۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے ظفر محمود کی تقرری تو واپس لے لی گئی ہے مگر ارسا ایکٹ میں آرڈیننس اپنی جگہ موجود ہے جس کی موجودگی میں اب کسی بھی صوبے کا ارسا میں رکن چیئرمین ارسا نہیں بن سکتا۔ البتہ وہ وائس چیئرمین یا پھر چیئرمین کی عدم موجودگی میں قائم مقام چیئرمین کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر صوبوں کے درمیان عرصۂ دار سے اختلافات چلے آ رہے ہیں مگر سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم پر اختلافات شدت اختیار کرتے رہے ہیں۔
'اگر آرڈیننس پر عمل ہوا تو ارسا کی اہمیت نمائشی رہ جائے گی'
سابق سیکریٹری واٹر اینڈ پاور فضل اللہ قریشی کہتے ہیں کہ اگر ارسا آرڈیننس پر عمل ہوا تو اتھارٹی کی حیثیت ثانوی اور نمائشی رہ جائے گی اور اس اتھارٹی کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آرڈیننس میں لکھا گیا ہے کے ارسا چیئرمین کا تقرر 'وزیر اعظم ' کرے گا اگر اس کی جگہ وفاقی حکومت لکھا جاتا تو اس تعیناتی میں وفاقی کابینہ کا بھی کردار ہوتا۔
آبی ماہر نصیر میمن کہتے ہیں نگراں حکومت نے ارسا ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کی کوششیں جنوری اور فروری میں کیں اور اس وقت کے صدر عارف علوی نے اس پر اعتراضات بھی عائد کیے مگر پھر اس کی منظوری دے دی۔
اُن کے بقول آئین کے مطابق پانی کے معاملات مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔ لیکن اس معاملے پر سی سی آئی سے بھی مشاورت نہیں کی گئی۔
اُن کے بقول اب تقرری تو رک گئی ہے، لیکن یہ آرڈیننس بدستور موجود ہے اور قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہ 16 فروری کو جاری ہوا اور اس کی مدت 120 روز تک ہے۔
نصیر میمن کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو یہ آرڈیننس واپس کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ یا تو صدرِ مملکت اسے واپس لے سکتے ہیں یا پھر قومی اسمبلی میں قرارداد کے ذریعے اسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔
ہفتے کو کراچی میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جب وزیرِ اعلٰی سندھ مراد علی شاہ سے اس آرڈیننس سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق فیصلہ اب پارلیمان کو کرنا ہے۔
فورم