پاکستان کے بایئسویں وزیر اعظم عمران خان نے تقریبا تین مہینے پہلے اقتدار سنبھالا تو انہیں ملک میں جاری معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود امن و امان کی صورتحال بھی خاصی ابتر حالت میں ملی۔ گزشتہ تین مہینوں میں اور خصوصاً توہین رسالت کے مقدمے میں آسیہ بی بی کے حق میں فیصلے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے جس قسم کی اشتعال انگیزی کی کیفیت پیدا ہوئی، اس پر وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں باور کروایا کہ ایسے عناصر ریاست سے نا ٹکرائیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں ان عناصر سے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست سے نا ٹکرانا ۔ اگر آپ یہ کریں گے میں آپ کو یہ واضح کر دوں کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔‘‘
لیکن اس کے باوجود تحریک لبیک نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یوں سوال یہ ہے کہ اب اچانک اس تحریک پر قدغن لگانے اور انہیں روکنے کے ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس پر سینئر سیاستدان اور کالم نگار ایاز امیر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بڑی وجہ اس احتجاج کی کال تھی جو تحریک نے پچیس نومبر کو ملک بھر میں دے رکھی تھی۔ ان کا جواز یہ تھا کہ وہ گزشتہ سال ان کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کی سالانہ تقریب منانا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں جمع ہونا چاہتے تھے۔
مگر ایاز امیر کہتے ہیں کہ لیاقت باغ میں جمع ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اس کے لیے راولپنڈی شہر اور دارالحکومت اسلام آباد کو بند کرنا پڑتا جس کی متحمل حکومت نہیں ہو سکتی۔ آسیہ بی بی کے فیصلے کے بعد حکومت دیکھ چکی تھی کہ ان لوگوں نے پورے ملک میں بے چینی پھیلا دی تھی اور پنجاب خصوصاً متاثر ہوا تھا جس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا رہا۔ اس لیے اب حکومت کو امن و امان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑا ۔
دوسری طرف سیاسی و دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کہتے ہیں، ’’پاکستان کا ماحول خطرناک موڑ پر کھڑا ہوا ہے کیونکہ اس قسم کی تنظیمیں زور پکڑ رہی ہیں اور حکومت پر ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے جس و جہ سے انہیں ایسا کرنا پڑا ۔‘‘
طلعت مسعود نے مزید کہا، ’’حکومت یہ توقع کرتی ہے کہ باہر کے لوگ آ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ سی پیک اور اس کے علاوہ یورپی ممالک سے بھی سرمایہ کاری کی توقع ہے جو اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی تھی جب تک یہ قدم نا اٹھایا جاتا ۔‘‘
ایاز امیر کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کی تنظیم پاکستان کی سلامتی اور حکومت دونوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی تھی کیونکہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا تھا۔ تاہم گزشتہ روز جب یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں تو عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر اسے عمران خان کی بڑی کامیابی قرار دیا مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا، ’’انیس سو پچاسی کے بعد سے اب تک یہ پہلی بار ہے کہ سول اور عسکری ادارے ایک جگہ کھڑے ہیں اور ان میں کوئی نفاق نہیں ہے۔ عمران خان کے آنے پر اس وقت عدلیہ فوج اور منتخب حکومت سب ایک جگہ کھڑے ہیں اور اس سے عمران خان کو ایک نفسیاتی اعتماد مل رہا ہے۔‘‘
کئی سالوں میں پہلی بار پاکستان کی سول حکومت اور فوج کے درمیان اس قسم کی ہم آہنگی کی وجوہات بتاتے ہوئے جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ عمران خان کے لیے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔ اُن کا کہنا ہے، ’’عمران خان کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اگر انہیں مستحکم ہونا ہے اور ان کے خلاف متحد حزب اختلاف کے زور سے انہیں بچنا ہے تو یہ بڑا ضروری ہے کہ فوجی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط رہیں تاکہ عمران خان یہ حکومت ٹھیک سے چلا سکیں۔‘‘
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ملک کی دیگر اہم پالیسیز جیسے خارجہ اور داخلہ امور پر ردو بدل اور انہیں لاگو کرنے کے لیے سول حکومت کو کس حد تک دسترس حاصل ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے امریکہ میں قائم تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ آف پیس سے منسلک تجزیہ کار معید یوسف کہتے ہیں، ’’پاکستان کی فوج کا اثرو رسوخ سیکیورٹی پالیسی اور خارجہ پالیسی پر ایک عام ملک سے بہت زیادہ ہے۔ اگر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی پر شاہ محمود قریشی صاحب اور دفتر خارجہ بذات خود اپنی پالیسیاں تشکیل دے رہی ہیں تو نہیں ایسا نہیں ہے۔ نا کبھی پاکستان میں ایسا ہو گا نا ہی اس کی امید اس وقت تک کرنی چاہیے جب تک سویلین ڈھانچہ اتنا مظبوط نہیں ہو جاتا کہ وہ ان پالیسیز پر عبور حاصل کر سکیں ۔‘‘
معید یوسف مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ اس وقت فوج اور سویلین حکومت کے عہدیدار ایک دوسرے سے ملتے جلتے رویے کا اظہار کر رہے ہیں اور آپس میں نکتہ چینی نہیں کر رہے ’’مگر اب بھی کچھ چیزوں پر واضح طور پر فوج کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ کچھ چیزوں پر دفتر خارجہ کے پاس لیڈ ہے اور حقیقتاً جو پاکستان کے حالات ہیں اور جو تاریخ ہے اس میں یہی معاملہ ہے اور یہ اسی طرح چلے گا۔‘‘‘
تجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستان کو حالیہ سالوں میں کبھی پنجاب اور فاٹا میں تحریک طالبان پاکستان تو کبھی کراچی میں ایم کیو ایم جیسی سیاسی تنظیم کے تسلط کا سامنا رہا ہے۔ اب تحریک لبیک کی جانب سے جس قسم کا دھمکی آمیز رویہ سامنے آ رہا تھا اس کو روکنے کے لیے اسی قسم کا انتہائی اقدام ضروری تھا جو پاکستان کے لیے مثبت دور رس نتائج حاصل کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے ۔