دنیا بھر میں کرونا وائرس کی ہلاکت خیزی اور تیزی سے پھیلاؤ نے خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے جس سے نہ صرف معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ بلکہ اس نے انسان کو گھروں میں مقید اور تنہا کر کے کئی طرح کے ذہنی مسائل اور دکھ کی ایک مسلسل کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
کرونا وائرس سے اپنے پیاروں کی موت کا صدمہ سہنے یا اس مرض کی تکلیف براشت کرنے والے بہت سے افراد ابھی تک اس کے خوف اور دہشت سے نکل نہیں سکے ہیں۔
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے پوری دنیا میں پھیلنے والا یہ وائرس اپنی تباہ کاریاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 14 مئی تک 16 کروڑ 22 لاکھ سے زیادہ افراد اس وبا کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ جب کہ عالمی سطح پر ہلاکتوں کی تعداد 33 لاکھ 64 کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔
اس وقت کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بھارت ہے جہاں کئی دن سے یومیہ نئے کیسز کی تعداد ساڑھے تین لاکھ اور ہلاکتیں چار ہزار سے زائد ہیں۔
بھارت میں اس صورتِ حال نے صحت کے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر دستیاب نہیں اور آکسیجن کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ جب کہ خوف زدہ لواحقین مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔
یہی صورتِ حال گزشتہ عرصے میں یورپ کے مختلف علاقوں، برازیل، جنوبی افریقہ اور امریکہ کے کئی حصوں میں پیش آ چکی ہے۔
نیو یارک کی یادیں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں جب اسپتالوں کے سامنے ایمبولنسز کی قطاریں لگی تھیں اور قبرستانوں میں جگہ کی قلت پڑ گئی تھی۔
کیلی فورنیا کے ’یو ایس سی ڈارنسیف کالج آف لیٹرز، آرٹ اور سائنسز‘ کے ڈونلڈ ای ملر نے عالمی وبا کے انسانی ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات اور صدمے کی کیفیت پر تحقیق کی ہے کہ کرونا وائرس کی دہشت اور خوف سے کس طرح چھٹکارہ پا کر معمول کی زندگی کی طرف لوٹا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس شدید ذہنی صدمے کا سب سے زیادہ شکار طبی عملہ ہوا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے سامنے کرونا وائرس کے مریضوں کو تڑپتے، سسکتے اور موت کے منہ میں جاتے دیکھا۔ ان کے مطابق یہ وائرس کے پھیلاؤ کا ابتدائی دور تھا اور طبی عملے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس نئی وبا سے کس طرح نمٹنا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس وقت تک ویکسین بھی نہیں آئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے والے بہت سے ڈاکٹر اور طبی عملے کے ارکان بھی اس موذی مرض میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے جس سے خوف اور صدمے میں مزید اضافہ ہوا۔
ملر نے اس صورتِ حال کا موازنہ 1994 میں افریقہ کے ملک روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے ایک بڑے واقعہ سے کیا ہے۔ اس واقعہ میں 100 دن کے اندر توتسی نسلی اقلیت کے آٹھ لاکھ افراد قتل کر دیے گئے تھے جنہیں حکومت کے حمایت یافتہ مخالف قبیلے ہوتو کے عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔
نسل کشی سے متعلق ایک تحقیق کے سلسلے میں ڈونلڈ ملر نے روانڈا کے قتل عام میں زندہ بچ جانے والے توتسی قبیلے کے کچھ افراد کے انٹرویوز کیے۔
وہ کہتے ہیں کہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ صدمے اور خوف کی کیفیت میں تھے۔ انہوں نے اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو گرجا گھروں میں گھس کر قتل کیا گیا تھا جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
ان کے مطابق قتل کیے جانے والوں میں عورتیں، مرد اور ہر عمر کے افراد تھے۔ کوئی اپنے بچوں سے محروم ہوا۔ تو کوئی بیوی اپنا شوہر کھو بیٹھی اور کسی خاوند کے سامنے اس کی چہیتی بیوی کو ذبح کر دیا گیا۔ کوئی بھائی اپنی بہن سے بچھڑا، تو کوئی بہن اپنے بھائی کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ اس نسل کشی نے توتسی اقلیت کا معاشرتی نظام درہم برہم کر دیا۔ انہیں چپ لگ گئی اور زندگی ان کے لیے ایک بوجھ بن گئی۔
ملر کہتے ہیں کہ روانڈا کے دورے میں ان کی ملاقات توتسی قبیلے کے ایک شخص گاکوانڈی سے ہوئی۔ وہ نسل کشی میں بڑی مشکل سے اپنی جان بچا پائے تھے۔ انہوں نے قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ قاتلوں کو روک نہیں سکتے تھے۔ محض مظلوموں کے ساتھ مل کر آنسو بہا سکتے تھے۔
گاکوانڈی کا کہنا تھا کہ آنسو بہانے سے دکھ کم تو ہو جاتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔ دکھ اور صدمے سے نجات کے لیے زندگی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو اس کرب سے نکالنے کے لیے روانڈا کے قصبے کیگالی میں اپنی ایک تنظیم قائم کی جہاں توتسی قبیلے کے متاثریں جمع ہوتے تھے۔ نسل کشی کے واقعات کو یاد کر کے آنسو بہاتے تھے۔ جب دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا تو پھر وہ دوسری باتیں کرتے تھے۔ اس طرح کے کئی سیشنز کے بعد وہ قتل عام کے بجائے اپنی باتیں کرنے لگے۔ پھر مل کر ہنسنے اور گانے لگے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ گئے اور نارمل زندگی گزارنے لگے۔
ملر کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے بعد لوگ صدمے اور خوف کی اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں جس کا سامنا روانڈا کے توتسی قبیلے کو ہوا تھا۔ اپنے پیاروں کو کھو دینے کے بعد ان کے دل بجھ گئے ہیں اور آنکھوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے۔ انہیں دنیا میں سوائے اندھیر ے کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں زندگی کی جانب واپس لانے کے لیے اسی جذبے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ کیگالی کے گاکوانڈی نے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے نتیجے میں ماند پڑتی ہوئی معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کو پھر سے بحال کرنے کے لیے انہیں صدمے اور دہشت کی حالت سے نکالنا ضروری ہو گیا ہے۔ آج دنیا کو گاکوانڈی جیسے کئی افراد کی ضرورت ہے۔