مغربی کنارے کے شمال میں واقع جنین کے علاقے سے متصل پناہ گزینوں کا 'جنین کیمپ' ایک بار پھر اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع میں تصادم کا مرکز بن کر سامنے آیا ہے۔
اسرائیل نے پیر سے جنین کیمپ پر 20 سال کے دوران شدید ترین حملوں کا آغاز کر رکھا ہے ، وہ اسے 'دہشت گردوں کی پناہ گاہ' قرار دیتا ہے۔
فلسطینی حکام نے اب تک اسرائیل کی کارروائیوں میں 12 افراد کی ہلاکت اور 100سے زائد زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جنین کیمپ سے اب تک 120 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔
جنین کیمپ کی تاریخ کیا ہے اور یہ کب کب تنازعات کا مرکز رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ماضی میں جانا ہو گا۔
جنین کیمپ کی تاریخ
جنین کیمپ 1953 میں اپنے قیام کے بعد سے مختلف تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ یہ کیمپ 1948 میں اسرائیل کے قیام اور پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے 1967 میں جب دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو جنین کیمپ بھی ان علاقوں میں شامل تھا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی 'یو این آر ڈبلیو اے 'کے مطابق جنین کی آبادی لگ بھگ 14 ہزار ہے اور اس کا رقبہ نصف مربع کلو میٹر سے بھی کم ہے۔
جنین کیمپ میں غربت اور بے روزگاری کی شرح مغربی کنارے میں موجود پناہ گزین کیمپوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پانی اور بجلی کی فراہمی کے بھی مسائل ہیں جن میں اسرائیلی کارروائی کے دوران شدت آگئی ہے۔
اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس علاقے میں طوفان نے تباہی مچا دی تھی۔پھر 2002 میں فلسطینی مزاحمت یا ’انتفادہ‘ کی دوسری لہر میں اسرائیل نے جنین کیمپ کے خلاف شدید کارروائیاں کی تھیں۔
سال 2002 میں یہودی تہوار پاس اوور کے دوران ایک فلسطینی کے خود کُش حملے میں 30 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد اسرائیلی فوج نے جنین میں بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دس روز کی شدید لڑائی کے بعد جنین کیمپ پر قبضہ کرلیا تھا۔
اسرائیلی فورسز نے اپنی کارروائی میں کیمپ کے 400 سے زیادہ مکانوں کو منہدم کردیا تھا جس کے باعث اس کی ایک چوتھائی آبادی بے گھر ہوگئی تھی۔
تنازع کے مرکز
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق 2021 کے وسط سے جنین کا علاقہ فلسطینی جنگجوؤں کے لیے 'مزاحمت کی علامت' بن چکا ہے۔ اس کے مطابق مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کے زیرِِ کنٹرول علاقے اور یہودی آبادکاروں کے حملوں میں اضافے کے باعث جنین کیمپ فلسطینی اسلامی جہاد، حماس،جنین بریگیڈ اور الفتح سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا مرکز بن گیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق یہ عسکریت پسند آتشیں اسلحے اور اسرائیلی فورسز کی گاڑیوں کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے مقامی ساختہ بموں سے لیس ہیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق 2022 کے وسط سے جنین کیمپ سے اسرائیلی فورسز اور آباد کاروں پر حملے میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس دوران فلسطینی عسکریت پسندوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم کے متعدد واقعات پیش آئے۔ اس کے علاوہ یہودی آبادکاروں پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا۔
گزشتہ ماہ بھی جنین میں کشیدگی جاری رہی جس میں حالیہ تیزی دو ہفتے قبل ہونے والے دو راکٹ حملوں کے بعد شروع ہوئی۔ یہ راکٹ اسرائیل کی ایک مارکیٹ میں پھٹ گئے تھے جس پر اسرائیل میں شدید ردِ عمل سامنے آیا۔
رواں برس مغربی کنارے میں پرتشدد واقعات کے باعث اب تک 130 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ جب کہ فلسطینیوں کے حملوں میں رواں برس کے دوران اب تک 24 افراد ہلاک ہوئےہیں۔
جنین کیمپ میں حالیہ پرتشدد واقعات کی وجہ سے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی حکومت پر جنین کیمپ میں کارروائیاں تیز کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔
جنین سے ہونے والی کارروائیوں کے بارے میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ یہاں قائم دہشت گردی کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں ضروری ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیلی وزیرِ خارجہ ایلی کوہن نے الزام عائد کیا کہ ایران کی فنڈنگ کی وجہ سے جنین دہشت گردی کا مرکز بن گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سویلینز کے جانی نقصان سے بچنے کے لیے ٹارگٹڈ کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
فلسطینی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور جنین سے ہونے والی کارروائی کو 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی کنارے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کا ردِ عمل قرار دیتے ہیں۔