رسائی کے لنکس

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے تحریکِ انصاف کو پارٹی پوزیشن کی فہرست سے کیوں نکالا؟


  • قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی فہرست میں تحریکِ انصاف کے 80 ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا رُکن ظاہر کیا گیا ہے۔
  • یہ اقدام اسپیکر قومی اسمبلی کے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔
  • الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مخصوص نشستوں سے متعلق نوٹی فکیشن 24 جولائی کو جاری کر دیا تھا: ذرائع الیکشن کمیشن
  • نوٹی فکیشن کے تحت ان 39 اراکین قومی اسمبلی جنہوں نے الیکشن کے دوران نامزدگی فارم میں پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی ظاہر کی تھی کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا تھا۔
  • لیکن قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا اصرار ہے کہ انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا۔

اسلام آباد -- پاکستان کی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کی گئی نئی پارٹی پوزیشن میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 80 ارکانِ اسمبلی کو سنی اتحاد کونسل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے یہ اقدام اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔

مذکورہ خط میں اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے بعد مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد اب ممکن نہیں رہا۔

جمعے کو جاری کی گئی نئی پارٹی پوزیشن میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 213 بتائی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے 110، پیپلز پارٹی کے 69، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 22 اور مسلم لیگ (ق) کے پانچ ارکان ہیں۔

نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے مجموعی ارکان کی تعداد 100 بتائی گئی ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کے 80، تحریکِ انصاف کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آٹھ آزاد ارکان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ ارکان بھی شامل ہیں۔ نئی فہرست میں تحریکِ انصاف بطور پارٹی موجود نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے ایک ذمے دار افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مخصوص نشستوں سے متعلق نوٹی فکیشن 24 جولائی کو جاری کر دیا تھا۔

اس نوٹی فکیشن کے تحت ان 39 ارکانِ قومی اسمبلی جنہوں نے الیکشن کے دوران نامزدگی فارم میں پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی ظاہر کی تھی کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے ذمہ دار افسر کے مطابق قانون کے تحت قومی اسمبلی سیکرٹریٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کے مطابق ارکان کی پارٹی وابستگی ظاہر کرنے کا پابند ہے۔

قومی اسمبلی کی قانون سازی برانچ کے ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قومی اسمبلی کو ایسا کوئی نوٹی فکیشن نہیں ملا ہے جس کے تحت پی ٹی آئی کے 39 اراکین کو پی ٹی آئی کا رکن قرار دیا گیا ہو اگر ہمیں ایسا نوٹی فکیشن ملتا تو پارٹی پوزیشن میں ان کو شامل کر لیتے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر حکومت کو اعتراضات ہیں۔

حکومت اس فیصلے پر نطرثانی کی درخواست داخل کرنے کا اعلان کر چکی ہے جب کہ حکومت سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے متعلق فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل بھی منظور کروا چکی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے 24 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کو ایک ماہ 27 دن ہو چکے ہیں مگر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے تاحال پی ٹی آئی کے قرار دیے گئے 39 ارکان کو بھی تحریکِ انصاف کا رُکن تسلیم نہیں کیا گیا۔

انیس ستمبر کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔

خط میں کہا گیا تھا کہ جس رکن پارلیمنٹ نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہو گا۔ وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ماہرین کا کہنا ہے کے مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ایک دوسرے کے آمنے سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔

'یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ہی جائے گا'

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ متنازع ہو گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کر چکی ہے اور اسپیکر نے اسی کو بنیاد بنا کر چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب الیکشن کمیشن، اسپیکر قومی اسمبلی کے خطاب کا جواب دے گا تو ہی واضح ہو گا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ اس مسئلے کا حل بھی سپریم کورٹ سے ہی نکلے گا۔

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اسپیکر قومی اسمبلی کے خط کو بھی مسترد کر سکتی ہے۔

اُن کے بقول الیکشن کمیشن تو پہلے ہی تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو قانونی نہیں مانتا اور اسی بنیاد پر اس نے انتخابی نشان واپس لیا تھا اور مخصوص نشستیں کے معاملے پر بھی اس کی پوزیشن واضح ہے۔ لہذٰا یہ معاملہ پھر سپریم کورٹ میں ہی جائے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG