رسائی کے لنکس

کنگنا رناوت اور شیو سینا کی لڑائی میں پاکستان کا ذکر کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بالی وڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے ہندو نیشنلسٹ پارٹی شیوسینا کی ریاستی حکومت کے ساتھ جاری اختلافی جنگ میں پاکستان اور کشمیر کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ جس کے بعد دونوں فریقین کے درمیان تنازع نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔

تنازع کی ابتدا اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی مبینہ خود کشی کے معاملے میں اداکارہ کنگنا رناوت کے اچانک کود پڑنے سے ہوئی۔

مہاراشٹر میں برسرِ اقتدار جماعت شیوسینا نے سوشانت سنگھ کی خودکشی سے متعلق بیانات پر کنگنا راناوت کو آڑے ہاتھوں لیا تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت کی جانب سے ان کی پشت پناہی کی گئی جس سے معاملات مزید الجھ گئے ہیں۔

جب یہ بحث چل رہی تھی کہ سوشانت سنگھ کی موت کی تفتیش ممبئی پولیس کرے یا بہار پولیس تو سوشانت سنگھ کے والد کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے یہ معاملہ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے حوالے کیا۔

کنگنا عدالتی فیصلے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کیوں کہ کنگنا پہلے سے ہی اس معاملے کی سی بی آئی سے تفتیش کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

اس موقع پر کنگنا نے سوشانت کی حمایت کرتے ہوئے ممبئی پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ممبئی کے حالات پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر جیسے ہیں۔

اس ٹوئٹ پر شیوسینا کے سینئر رہنما اور شیوسینا کے اخبار 'سامنا' کے ایڈیٹر سنجے راوت نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کنگنا کو ممبئی پولیس پر اعتماد نہیں ہے اور انہیں یہاں ڈر لگتا ہے تو وہ ممبئی نہ آئیں۔

اس وقت کنگنا اپنے آبائی وطن ہماچل پردیش میں تھیں۔ انہوں نے بھی سخت جواب دیا اور کہا کہ وہ فلاں تاریخ کو ممبئی پہنچ رہی ہیں اور 'ممبئی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔'

اسی دوران بی جے پی نے کنگنا کی در پردہ حمایت شروع کر دی اور مرکزی وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر اُنہیں 'وائی پلس' زمرے کی سیکیورٹی فراہم کر دی گئی جس کے تحت دس کمانڈوز ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے لگے۔

کنگنا نو ستمبر کو کمانڈوز کے ہمراہ سہ پہر کے وقت ممبئی پہنچ گئیں۔

دریں اثنا برہن ممبئی کارپوریشن (بی ایم سی) نے ممبئی میں واقع ان کے گھر میں غیر قانونی تعمیرات کا الزام عائد کر کے ان کا گھر منہدم کرنے کی کارروائی شروع کر دی جس پر کنگنا نے ایک بار پھر اسے مبینہ طور پر سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔

کنگنا نے ٹوئٹ میں اپنے گھر کو رام مندر اور مہاراشٹر حکومت کو بابر لکھا۔ اسی کے ساتھ ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے اپنے گھر میں توڑ پھوڑ کی تصاویر شیئر کیں جس پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان لکھا اور ہیش ٹیگ میں جمہوریت کا قتل۔

کنگنا اپنے گھر کے انہدام کے خلاف وکیل کے توسط سے ممبئی ہائی کورٹ پہنچ گئیں جہاں عدالت نے حکام کو گھر کو منہدم کرنے کی کارروائی روکنے کے احکامات جاری کر دیے۔

چند روز کی اس لڑائی میں کنگنا نے اپنے متعدد ٹوئٹس میں پاکستان، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، کشمیری پنڈت، کشمیر، رام مندر، ایودھیا اور بابر جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔

تین ستمبر کو انہوں نے ممبئی کو شیوسینا کی جانب سے لاحق مبینہ خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور طالبان سے مشابہہ قرار دیا تھا۔

جب نو ستمبر کو ان کے مکان میں انہدامی کارروائی چل رہی تھی تو انہوں نے ٹوئٹر پر اس کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میں کبھی غلط نہیں تھی۔ میرے دشمنوں نے ثابت کر دیا کہ ممبئی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ہے۔

بدھ کو ساڑھے چار بجے ممبئی پہنچتے ہی انہوں نے وزیرِ اعلیٰ اودھے ٹھاکرے کے بارے میں نازیبا کلمات کا استعمال کیا اور لکھا کہ آج میں محسوس کر رہی ہوں کہ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کیا ہوا۔ اب میں نہ صرف ایودھیا پر بلکہ کشمیر پر بھی فلم بناؤں گی۔

کنگنا کی جانب سے اپنی ٹوئٹس میں پاکستان اور کشمیر کا حوالہ دینے پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے کہا ہے کہ جمہوریت کے قتل اور نظم و نسق کے سلسلے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا ذکر کیوں؟ کشمیر میں لاقانونیت اور ریاست کی سرپرستی میں کیے جانے والے مظالم کو دیکھو۔ یہاں تو بہت پہلے جمہوریت کو قتل کر دیا گیا تھا۔

صحافی راہول پنڈتا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "ایک دیوار کے انہدام کا موازنہ آپ کشمیری پنڈتوں کے مصائب سے نہیں کرسکتے۔ آپ نہیں جانتے کہ جب معمر افراد جلا وطنی میں مرتے ہیں اور آخری بار اپنے گھر کو نہ دیکھ پانے پر چلاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ خدا کے لیے کشمیری پنڈتوں کا نام لینا بند کرو، اپنی انا کی لڑائی میں انھیں مت گھسیٹو۔"

سری نگر کے رہائشی ایک کشمیری پنڈت سنجے ٹکو کا کہنا ہے کہ کشمیری پنڈت اور کنگنا کے دفتر کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ ان کے بقول آج کل ہر شخص اپنے فائدے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو استعمال کرتا ہے۔

کشمیر کے ایک سیاسی تجزیہ کار ماجد حیدری کہتے ہیں کہ کنگنا نے اپنے غیر قانونی گھر کے انہدام کو کشمیری پنڈتوں کے درد سے جوڑ کر ان کی توہین کی ہے۔ پنڈتوں نے کچھ بھی غیر قانونی نہیں کیا اور خاموشی سے سب کچھ جھیلا۔ کنگنا اپنے غیر قانونی کاموں کو گلیمرائز کر رہی ہیں۔

تاہم متعدد کشمیری قلم کاروں اور کارکنوں نے کنگنا کی حمایت بھی کی ہے۔

کشمیری پنڈتوں پر کئی کتابوں کے مصنف سدھارتھ گیگو نے کنگنا کی حمایت کی اور کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ وہ ہم لوگوں پر فلم بنائیں گی۔

'کنگنا اور شیو سینا کے تنازع کے پیچھے کوئی بڑا کھیل ہے'

فلم ساز اشوک پنڈت نے کہا کہ وہ کشمیری پنڈتوں کی بے وطنی کو اجاگر کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس موضوع پر فلم بنانے کا ان کا ارادہ قابل ستائش ہے۔

مصنف راکیش کول اور ورد شرما جیسے لوگوں نے بھی کنگنا رناوت کی حمایت کی۔ لیکن ایک سیاسی تجزیہ کار انجلی دامانیا اس زبانی جنگ کے پیچھے کوئی بڑا کھیل دیکھتی ہیں۔

انجلی دامنیا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کنگنا کی جانب سے جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اس پر انہیں حیرت ہے۔ رام مندر، بابری مسجد، کشمیری پنڈت جیسے الفاظ کے استعمال سے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے 'بی جے پی' ہے۔

اُن کے بقول کوئی بھی شخص یہ بات محسوس کر سکتا ہے کہ مہاراشٹر حکومت کے خاتمے کے لیے یہ بہت بڑا سیاسی کھیل ہے اور شیو سینا نے اس جال میں پھنس کر اپنی ناتجربہ کاری کا ثبوت دیا ہے۔

ممبئی کے عوام اس معاملے پر منقسم ہیں۔ ایک حلقہ کنگنا کی مذمت کر رہا ہے تو ایک حلقہ ان کی حمایت کر رہا ہے۔

ان کے گھر کو منہدم کرنے کی کارروائی کو سینئر رہنما اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ اس سے کنگنا کو غیر ضروری شہرت مل گئی ہے۔

انہوں نے وزیرِ اعلیٰ اودھے ٹھاکرے سے ملاقات کر کے کہا کہ ممبئی میں اور بھی غیر قانونی تعمیرات ہیں صرف کنگنا کے گھر پر ہی کارروائی کیوں کی گئی۔

شرد پوار کی پارٹی ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی مہاراشٹر کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور سنجے راوت اور شیو سینا کے دیگر رہنما کنگنا کے خلاف بیان بازی کر کے اس جال میں پھنس گئے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عامر خان یہ کہتے ہیں کہ ان کی بیوی کو بھارت میں ڈر لگتا ہے اور نصیر الدین شاہ عدم برداشت کے ماحول پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان چلے جائیں لیکن جب کنگنا رناوت کہتی ہیں کہ ممبئی میں ڈر لگتا ہے تو انہیں سیکیورٹی فراہم کر دی جاتی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG