رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے استعفے کی نوبت کیوں آئی؟


  • شیخ حسینہ کے حکومت کے خلاف حالیہ احتجاجی لہر طلبہ نے شروع کی تھی جو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے داخلے میں کوٹے کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔
  • مظاہروں کے خلاف حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے حامیوں کے ساتھ احتجاج کے شرکا کے تصادم کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
  • وسط جولائی اور اگست کے شروع میں ہونے والے مظاہروں میں 300 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
  • احتجاج کرنے والے طلبہ نے وزیرِ اعظم کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر دیا تھا۔

ویب ڈیسک __شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ جنرل وقارالزمان نے ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

شیخ حسینہ کا استعفی ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومت کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک شدت اختیار کر چکی تھی۔

احتجاجی تحریک کا آغاز جولائی میں سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہوا تھا۔ لیکن چند ہفتوں میں وزیرِ اعظم کا استعفی اس تحریک کا واحد مطالبہ بن گیا۔

بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والے طلبہ کے حالیہ مظاہروں کو شیخ حسینہ کے گزشتہ 15 برس سے جاری دورِ اقتدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا تھا۔

اگرچہ 21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا تھا تاہم اس کے باوجود یہ احتجاجی لہر برقرار رہی۔

شیخ حسینہ کی حکومت کی خلاف تحریک شروع ہونے سے ان کے مستعفی ہونے تک حالات کس طرح تبدیل ہوئے؟ اس کی اہم تفصیلات یہاں دی جا رہی ہیں۔

احتجاج میں کب کیا ہوا؟

طلبہ کا یہ احتجاج جون 2024 میں ہائی کورٹ کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی بحالی کے بعد شروع ہوا تھا۔ بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں۔ جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔

حکومت کے ناقدین کا الزام تھا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نافذ کوٹے کو اپنے سیاسی حامیوں اور کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد طلبہ نمائندوں نے کوٹے کے خاتمے کے لیے مظاہروں کا آغاز کیا۔ جولائی کے وسط میں جب تحریک نے شدت اختیار کی تو سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

کئی مقامات پر حکمران جماعت عوامی لیگ کے حامیوں نے بھی طلبہ اور مظاہرین پر حملے کیے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق 15 سے 21 جولائی کے دوران ہونے والی جھڑپوں اور پرتشدد واقعات میں لگ بھگ 200 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ حکومت کی جانب سے لگ بھگ 11 ہزار مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

طلبہ کے احتجاج کے بعد 21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے متنازع کوٹہ ختم کرتے ہوئے 93 فی صد ملازمتیں اوپن میرٹ پر دینے کا فیصلہ دیا۔

کوٹہ سسٹم پر اپنے مطالبات کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد بھی طلبہ نے مظاہرے جاری رکھے اور ساتھ ہی مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات اور انٹر نیٹ کی بندش پر وزیرِ اعظم شیخ حسینہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔

مظاہرین کے مطالبات میں احتجاج کے دوران مرنے والے افراد کو انصاف دلانے اور قیدیوں کی رہائی کے مطالبات بھی شامل ہو گئے۔ لیکن بعد میں مظاہرین کے مطالبات وزیرِ اعظم کے استعفی کے ایک نکتے پر آ گئے۔

مظاہرین شیخ حسینہ کی حکومت کو جولائی میں ہونے والے پر تشدد واقعات کا ذمے دار قرار دے رہے تھے اور ان کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

حکومت کے ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپس بھی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا الزام عائد کرتے تھے۔ تاہم حکومت ان الزمات کو ماننے سے انکاری رہی۔

شیخ حسینہ نے ابتدا میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ کوٹہ کے خلاف احتجاج میں طلبہ شامل نہیں ہیں۔ انہوں ںے اپوزیشن کی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی) اور جماعت اسلامی کو ہنگامہ آرائی اور کشیدگی کا ذمے دار ٹھہرایا۔

ان کی حکومت نے جماعتِ اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم کو مظاہروں کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ لیکن اس کے باوجود احتجاج کی شدت میں کمی نہیں آئی۔

البتہ ہفتے کو شیخ حسینہ نے طلبہ لیڈرز کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ تاہم طلبہ وزیرِ اعظم کے استعفے کے مطالبے پر ڈٹے رہے جس کے بعد ہفتے کو ان کی حکومت نے مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کیا تھا۔

اسی دوران طلبہ کے مظاہروں کی قیادت کرنے والی تنظیم ’اسٹوڈنٹ اگینسٹ ڈسکریمینیشن‘ نے وزیرِ اعظم کے استعفے تک ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران فوج کے سربراہ وقارالزمان کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔

بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ سے جاری احتجاج میں لگ بھگ 300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں
بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ سے جاری احتجاج میں لگ بھگ 300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں

ڈھاکہ کی جانب مارچ

اتوار کو سول نافرمانی تحریک کے پہلے روز ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے جس کے دوران کم از کم 90 ہلاکتیں ہوئیں جن میں 14 پولیس اہل کار بھی شامل تھے۔

پر تشدد واقعات کے بعد طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکہ کی جانب مارچ کرنے کی کال دی۔ حکومت نے مظاہرین کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے بزور طاقت اس مارچ کو روکنے کا اعلان کیا اور حکمران جماعت کے ایک رہنما نے کہا کہ مظاہرین کو روکنے کے لیے ان کی جماعت کے کارکن سڑکوں پر موجود ہوں گے۔

کرفیو اور عام تعطیل کے اعلانات اور انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود پیر کو ڈھاکہ کے نواحی علاقوں سے ہزاروں افراد نے دارالحکومت کی جانب مارچ کیا۔ ڈھاکہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑے مظاہرے ہوئے۔

اسی دوران یہ اطلاعات سامنے آئے کہ فوج کی مداخلت کے بعد شیخ حسینہ نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفی دے دیا ہے اور وہ ایک ہیلی کاپٹر میں بھارت روانہ ہو گئی ہیں۔

استعفی کے بعد۔۔۔

شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی وزارتِ عظمی سے استعفی دینے کے بعد بھارت پہنچ گئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ وہ لندن روانہ ہو سکتی ہیں۔

وزیرِ اعظم کے استعفی کے بعد بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر کے ساتھ عبوری حکومت کے قیام کے لیے بات چیت شروع کی جائے گی جس میں تمام مرکزی سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

آرمی چیف نے طلبہ اور عام شہریوں سے پرُامن رہنے کی اپیل کی اور کہا کہ ملک میں ایمرجینسی یا کرفیو کے نفاذ کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے گزشتہ ماہ سے جاری مظاہروں اور پر تشدد واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم کے استعفے اور عبوری حکومت کے اعلان کے باجود ڈھاکہ میں مظاہرین سڑکوں پر ہیں۔ ان میں سے کئی مظاہرین وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔

مظاہرین نے ڈھاکہ میں شیخ حسینہ کے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ میں بھی توڑ پھوڑ کی ہے۔

بنگلہ دیش کے چیف جسٹس اور عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے وزرا کی رہائش گاہوں پر مظاہرین کے حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔

سیکیورٹی تحفظات کے پیش نظر ڈھاکہ کے ایئر پورٹ کا فلائیٹ آپریشن بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

حالات کیسے تبدیل ہوئے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کا استعفی اگرچہ طلبہ کے حالیہ احتجاج کا نتیجہ ہے۔ لیکن جنوری 2024 میں الیکشن کے بعد ہی سے بنگلہ دیش کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا۔

ان انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی انتخابی مہم کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئی تھیں۔

عالمی مبصرین اور اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن پراسس کی شفافیت پر بھی کئی سوالات اٹھائے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ احتجاجی لہر نے بنگلہ دیش کے نظام حکومت اور معیشت میں کرونا وبا، یوکرین اور غزہ میں جاری جنگ سے پڑنے والی دراڑوں کو مزید واضح کیا۔ ساتھ ہی ان مظاہروں سے عیاں ہوا کہ ملک میں نوجوان گریجویٹس کے لیے معیاری ملازمتوں کی کمی ہے۔

بڑی تعداد میں مظاہرین ڈھاکہ میں وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر جمع ہیں۔
بڑی تعداد میں مظاہرین ڈھاکہ میں وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر جمع ہیں۔

طلبہ مظاہروں کے بارے میں ڈھاکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’اسٹار نیوز‘ میں معاشیات کے سابق پروفیسر اور تجزیہ کار انور محمد نے لکھا تھا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد روزگار نہ ملنے کے تلخ تجربات کی وجہ سے طلبہ بڑی تعداد میں ان مظاہروں میں شریک ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت میں تو بہتری نظر آتی ہے لیکن روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے ۔بے روزگاری کے ساتھ ساتھ سرکاری بھرتیوں میں بڑے پیمانے پر بے لگام کرپشن اور بے ضابطگیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک انتخابی نتائج پر پائی جانے والی بے چینی اور طلبہ کے احتجاج نے وہ حالات پیدا کیے جس کے باعث شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار بھی ملک کی وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنا اقتدار برقرار نہیں رکھ سکیں۔

اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے حاصل کی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG