وکی لیکس میں شائع ہونے والی امریکی سفارت کاروں کی خفیہ کیبلز کی اشاعت پر واشنگٹن میں یہ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ان سے امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ؟ اور کیا ان کی اشاعت پر ممکنہ پابندی امریکہ میں آزادی ِ اظہار رائے کےحق کے منافی تو نہیں ؟ قانون، صحافت اور انٹیلی جنس کے ماہرین اس بارے میں مختلف آرا کا اظہار کررہے ہیں۔
وکی لیکس نے کچھ ایسے سرکاری رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے جنھیں امریکی حکومت شاید کبھی عام نہ کرتی۔ایک قانونی ماہر لوسی دالگش کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اس بارے میں جانیں کہ ہماری حکومت ہمارے دیے ہوئے ٹیکس کی رقم سے کیا کر رہی ہے۔
لوسی دالگش آزاد صحافت کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام آدمی کو، جن میں صحافی بھی شامل ہیں، حکومت کی روک ٹوک کے بغیر سب کچھ کہنے کا حق ہے۔ استشنیٰ اس پر ہے جسے عام کرنے سے فساد برپاہونے یا بہت نقصان کا اندیشہ ہو۔
سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار، جیمز بروس کہتے ہیں کہ حساس معلومات کی اشاعت سے امریکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ معلومات ملک دشمنوں تک بھی پہنچتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکی پریس کی نگرانی کرتے ہیں اور ایسی معلومات حاصل کرتے ہیں جن سے انھیں پتا چلتا ہے کہ ہم کیسے انٹیلی جنس کی مدد سے مواد اکٹھا کرتے ہیں۔ اور پھر وہ ان معلومات کی مدد سے ہمارا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔ پریس کو اس بات کا ادراک نہیں کہ یہ حساس معلومات کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
صحافیوں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سو سائٹی آف جرنلسٹس کے صدر ہیگت لیمور کہتے ہیں کہ ہم حساس معلومات کو ایسے ہی نہیں چھاپ دیتے ۔ اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں علم نہ ہو تو ہم اس شعبے کے ماہرین کی رائے لیتے ہیں کہ جو معلومات ہم دے رہے ہیں وہ ٹھیک ہیں یا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی مسودے کو شائع کرنے سے پہلے اس کے حوالے سے جانچ پڑتال کریں کہ اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم ایسی معلومات کی تلاش میں رہتے ہیں جو عام آدمی کو سوچنے پر مجبور کرے، اور حکومتی کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ یہی ہمارا کردار ہے۔
جب کہ جیمز بروس کہتے ہیں کہ صحافیوں کے اندر احساس ذمہ دار ی کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف بھی انتہائی حساس معلومات شائع کرنے والے صحافیوں کا، جن کی اچھی خاصی تعداد ہے، محاسبہ کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔
امریکی حکومت بھی میڈیا کے ایسے اداروں کے خلاف کاروائی کرنے میں کامیاب نہیں رہی جو حساس معلومات پر مبنی رپورٹس نشر کرتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ انٹرنیٹ نے ان معلومات کو اور بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے، قانونی ماہرین پہلی جنگ عظیم کے زمانے کے ، ایسپیاناج ایکٹ نامی قانون کا دوبارہ جائزہ لینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ خفیہ سرکاری دستاویز کا بہتر تحفظ کیا جا سکے ۔