اسلام آباد —
دیہی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے پیر کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وسائل تک رسائی میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں مردوں کی نسبت خواتین کے زیر کاشت رقبے سے حاصل ہونے والی پیداوار 30 فیصد کم ہوئی ہے۔
’’دی اسٹیٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر‘‘ یا خوراک اور زراعت کی حالت زار کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1980ء سے، پاکستان میں کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ تعداد بتدریج 30 اور 50 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں زراعت سے وابستہ خواتین کی تعداد 43 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 92 کروڑ 50 لاکھ ہے اور جنس کی بنیاد پر وسائل کی فراہمی میں فرق کو ختم کرکے اس تعداد میں 17 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
کسان عورتوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھیں زمین، جدید زرعی پیداواری معلومات، قرضوں اور جدید زرعی آلات تک رسائی جیسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں مال مویشیوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر بھی عورتوں کا اختیار نہیں ہوتا۔
عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 20 فیصد سے کم خواتین کسان اپنے کھیتوں کی مالک ہیں۔ اس اعتبار سے لاطینی امریکہ سر فہرست ہے جہاں 18 فیصد کسان خواتین اپنے کھیتوں میں کاشتکاری کرتی ہیں۔
رپورٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور اکواڈور کو ایسے ممالک بتایا گیا ہے جہاں جنس کی بنیاد پرغیر مساوی زرعی زمین کی ملکیت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے اور عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے پاس زمین دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔
’’دی اسٹیٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر‘‘ یا خوراک اور زراعت کی حالت زار کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1980ء سے، پاکستان میں کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ تعداد بتدریج 30 اور 50 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں زراعت سے وابستہ خواتین کی تعداد 43 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 92 کروڑ 50 لاکھ ہے اور جنس کی بنیاد پر وسائل کی فراہمی میں فرق کو ختم کرکے اس تعداد میں 17 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
کسان عورتوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھیں زمین، جدید زرعی پیداواری معلومات، قرضوں اور جدید زرعی آلات تک رسائی جیسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں مال مویشیوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر بھی عورتوں کا اختیار نہیں ہوتا۔
عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 20 فیصد سے کم خواتین کسان اپنے کھیتوں کی مالک ہیں۔ اس اعتبار سے لاطینی امریکہ سر فہرست ہے جہاں 18 فیصد کسان خواتین اپنے کھیتوں میں کاشتکاری کرتی ہیں۔
رپورٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور اکواڈور کو ایسے ممالک بتایا گیا ہے جہاں جنس کی بنیاد پرغیر مساوی زرعی زمین کی ملکیت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے اور عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے پاس زمین دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔