ارت کے شہر بنگلور میں ایک خاتون پر متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہرے کے دوران پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
حیدر آباد سے رُکن پارلیمان اور مسلمان رہنما اسد الدین اویسی بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ تاہم اُنہوں نے اس خاتون سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق 'آئین بچاؤ' کے نام سے منعقدہ تقریب میں اسد الدین اویسی کے علاوہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما بھی شریک تھے۔ اس دوران امولیا نامی خاتون نے متنازع شہریت بل کے خلاف تقریر کے دوران پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
منتظمین نے خاتون کو روکنے اور مائیک چھیننے کی بھی کوشش کی۔ اسدالدین اویسی سمیت دیگر منتظمین نے کہا کہ آپ کیا بول رہی ہیں۔ آپ کو ایسا کہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس دوران پولیس اہلکار نے اسٹیج پر پہنچ کر خاتون کو حراست میں لے لیا۔
بعدازاں پولیس نے خاتون کے خلاف دفعہ 124 اے، 153 اے اور بی کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔ خاتون کو جمعے کو ہی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اُن کی درخواستِ ضمانت بھی خارج کر دی گئی ہے۔
بنگلور کے سینئر پولیس افسر بی رامیش نے بتایا کہ خاتون کے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ خاتون کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس واقعے پر اسدالدین اویسی سمیت دیگر منتظمین کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
بی جے پی کرناٹک کے رہنما نے ٹوئٹ کی کہ اسدالدین اویسی کی موجودگی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اس یہ بھی واضح ہو گیا کہ شہریت بل کے خلاف مظاہرے انڈین نیشنل کانگریس اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
واقعے کے بعد اسدالدین اویسی نے وضاحت کی کہ اُن کا اس خاتون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ منتظمین کو اسے یہاں نہیں بلانا چاہیے تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم بھارتی ہیں اور اپنے دُشمن پاکستان کی حمایت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہماری ساری تحریک کا مقصد متنازع شہریت بل سے بھارتی جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان سے بچانا ہے۔
ایک منتطم عمران پاشا نے کہا کہ خاتون کو مخالفین نے اُن کا احتجاج خراب کرنے کے لیے بھیجا۔ خاتون کا نام مقررین کی فہرست میں نہیں تھا۔ لہذٰا اس واقعے کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔
بھارت میں گزشتہ سال دسمبر سے متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ احتجاج اُس وقت شروع ہوا جب 12 دسمبر کو بھارتی پارلیمان نے شہریت ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔ بل کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانسان سے مذہب کی بنیاد پر جبر کا شکار ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن مسلمانوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے مذکورہ بل کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کے سیکولر تشخص کے خلاف قرار دیا تھا۔