حقوقِ انسانی کی ایک موقر تنظیم کا کہنا ہے کہ شام کی حکومت کی حمایت یافتہ فورسز نے حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں سے رواں برس جھڑپوں کے بعد دو علاقوں میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 248 افراد کو قتل کیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ ہلاکتیں البیضا اور بانیاس نامی ساحلی علاقوں میں ہوئیں، اور یہ شام میں ڈھائی برس سے جاری خانہ جنگی کے دوران ’’قتل عام کے مہلک ترین واقعات‘‘ میں شامل ہیں۔
تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتلِ عام کا یہ واقعہ 2 اور 3 مئی کے دوران جھڑپوں کے بعد پیش آیا۔ حزب مخالف کے جنگجوؤں کی پسپائی کے بعد صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے گھروں میں داخل ہو کر مردوں کو اپنے قبضے میں لیا اور اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے اعداد و شمار کے مطابق البیضا میں سرکاری فورسز نے کم از کم 23 خواتین اور 14 بچوں کو بھی ہلاک کیا۔
شام کی حکومت ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کرنے اور البیضا اور بانیاس میں فوجی کارروائی کے دوران اس کے الفاظ میں ’’کوتاہیوں‘‘ کی تصدیق کر چکی ہے۔ شامی حکومت باغیوں کو دہشت گرد گردانتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بیشتر ہلاکتیں جھڑپیں ختم ہو جانے کے بعد ہوئیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ ہلاکتیں البیضا اور بانیاس نامی ساحلی علاقوں میں ہوئیں، اور یہ شام میں ڈھائی برس سے جاری خانہ جنگی کے دوران ’’قتل عام کے مہلک ترین واقعات‘‘ میں شامل ہیں۔
تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتلِ عام کا یہ واقعہ 2 اور 3 مئی کے دوران جھڑپوں کے بعد پیش آیا۔ حزب مخالف کے جنگجوؤں کی پسپائی کے بعد صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے گھروں میں داخل ہو کر مردوں کو اپنے قبضے میں لیا اور اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے اعداد و شمار کے مطابق البیضا میں سرکاری فورسز نے کم از کم 23 خواتین اور 14 بچوں کو بھی ہلاک کیا۔
شام کی حکومت ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کرنے اور البیضا اور بانیاس میں فوجی کارروائی کے دوران اس کے الفاظ میں ’’کوتاہیوں‘‘ کی تصدیق کر چکی ہے۔ شامی حکومت باغیوں کو دہشت گرد گردانتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بیشتر ہلاکتیں جھڑپیں ختم ہو جانے کے بعد ہوئیں۔