واشنگٹن —
اگست 1963ء میں، واشنگٹن میں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد نے اس تاریخی مظاہرے میں شرکت کی تھی جس نے نسلی تعصب پر امریکہ کی تاریخ کو رخ بدل ڈالا۔
1963ء میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی طرف سے اس مارچ میں شرکت کا سہرا بہت سے لوگوں کی کاوشوں کو جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک ہیں الینر ہولمز نارٹن، جو اب ایک کانگریس وومن ہیں اور 1963ء میں مارٹن لُوتھر کنگ کے جلسے کے وقت نیویارک شہر میں کام کیا کرتی تھیں۔ اُس وقت انہوں نے واشنگٹن تک لوگوں کے پہنچانے کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
جلسے سے ایک رات پہلے تک کانگریس وومن نارٹن نیویارک میں موجود تھیں اور ریلی کی صبح واشنگٹن پہنچی تھیں۔
اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے الینر ہولمز نارٹن کہتی ہیں کہ، ’لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہو رہے تھے کہ اس وقت ہم پر یہ واضح تھا کہ یہ مارچ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگا۔‘
1963ء کے اس تاریخی جلسے میں شرکت کرنے والی ایک اور خاتون تھیلما ڈیلے تھیں جو شہری حقوق کی ایک تنظیم کی سربراہی کرتی ہیں۔
پچاس برس قبل انہوں نے اس مارچ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ شرکت کی تھی۔ تھیلما ڈیلے کہتی ہیں کہ، ’ہم وہاں پُرجوش کھڑے تھے اور ہم جوق در جوق لوگوں کو آتا دیکھ رہے تھے۔ اب اس وقت کو یاد کرتے ہوئے میں یہ سوچتی ہوں کہ کیا واقعی میں اس تاریخی وقت کا حصہ تھی؟‘
تھیلما ڈیلے کہتی ہیں کہ اس وقت اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئے اور ان سب کے ہاتھوں میں مختلف سلوگنز تھے۔
پچاس برس قبل امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ رُوبی بریجز کی مثال ہی لیجیئے جو 1960ء میں سکول کی طالبہ تھیں اور انہوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
1963ء میں ہونے والے تاریخی مظاہرے کے کچھ ہی عرصے بعد ریاست الاباما میں ایک کلیساء میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں چار سیاہ فام لڑکیاں ہلاک ہوئی تھیں۔ ان لڑکیوں کی ہلاکت نے امریکہ بھر میں مظاہروں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا تھا۔
اُسی سال ان چار سیاہ فام لڑکیوں کو بعد از مرگ ’کانگریشنل گولڈ میڈل‘ سے نوازا گیا تھا۔
1955ء کا وہ واقعہ تو سبھی کی یادداشت میں زندہ ہوگا جسے امریکی شہری حقوق کی اس تحریک کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ 1955ء میں روزا پارکس نے ایک بس میں اپنی نشست سفید فام کے لیے چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جس کے بعد سیاہ فام شہریوں کی جانب سے شہری حقوق کی اس تحریک میں تیزی دیکھی گئی اور بالآخر اس تحریک نے امریکہ کا رخ بدل ڈالا۔
رواں برس روزا پارکس کا مجسمہ کیپیٹل ہل میں نصب کیا گیا۔ مجسمے کی تقریب ِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ روزا پارکس نے ایک متحرک زندگی گزاری۔
صدر اوباما کے الفاظ، ’صرف ایک لمحے میں اپنے سادہ سے عمل سے، انہوں (روزا پارکس) نے امریکہ کو بدلنے میں مدد دی۔۔۔ اور دنیا کو بھی۔‘
1963ء میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی طرف سے اس مارچ میں شرکت کا سہرا بہت سے لوگوں کی کاوشوں کو جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک ہیں الینر ہولمز نارٹن، جو اب ایک کانگریس وومن ہیں اور 1963ء میں مارٹن لُوتھر کنگ کے جلسے کے وقت نیویارک شہر میں کام کیا کرتی تھیں۔ اُس وقت انہوں نے واشنگٹن تک لوگوں کے پہنچانے کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
جلسے سے ایک رات پہلے تک کانگریس وومن نارٹن نیویارک میں موجود تھیں اور ریلی کی صبح واشنگٹن پہنچی تھیں۔
اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے الینر ہولمز نارٹن کہتی ہیں کہ، ’لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہو رہے تھے کہ اس وقت ہم پر یہ واضح تھا کہ یہ مارچ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگا۔‘
1963ء کے اس تاریخی جلسے میں شرکت کرنے والی ایک اور خاتون تھیلما ڈیلے تھیں جو شہری حقوق کی ایک تنظیم کی سربراہی کرتی ہیں۔
پچاس برس قبل انہوں نے اس مارچ میں اپنے دوستوں کے ہمراہ شرکت کی تھی۔ تھیلما ڈیلے کہتی ہیں کہ، ’ہم وہاں پُرجوش کھڑے تھے اور ہم جوق در جوق لوگوں کو آتا دیکھ رہے تھے۔ اب اس وقت کو یاد کرتے ہوئے میں یہ سوچتی ہوں کہ کیا واقعی میں اس تاریخی وقت کا حصہ تھی؟‘
تھیلما ڈیلے کہتی ہیں کہ اس وقت اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئے اور ان سب کے ہاتھوں میں مختلف سلوگنز تھے۔
پچاس برس قبل امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ رُوبی بریجز کی مثال ہی لیجیئے جو 1960ء میں سکول کی طالبہ تھیں اور انہوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
1963ء میں ہونے والے تاریخی مظاہرے کے کچھ ہی عرصے بعد ریاست الاباما میں ایک کلیساء میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں چار سیاہ فام لڑکیاں ہلاک ہوئی تھیں۔ ان لڑکیوں کی ہلاکت نے امریکہ بھر میں مظاہروں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا تھا۔
اُسی سال ان چار سیاہ فام لڑکیوں کو بعد از مرگ ’کانگریشنل گولڈ میڈل‘ سے نوازا گیا تھا۔
1955ء کا وہ واقعہ تو سبھی کی یادداشت میں زندہ ہوگا جسے امریکی شہری حقوق کی اس تحریک کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ 1955ء میں روزا پارکس نے ایک بس میں اپنی نشست سفید فام کے لیے چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جس کے بعد سیاہ فام شہریوں کی جانب سے شہری حقوق کی اس تحریک میں تیزی دیکھی گئی اور بالآخر اس تحریک نے امریکہ کا رخ بدل ڈالا۔
رواں برس روزا پارکس کا مجسمہ کیپیٹل ہل میں نصب کیا گیا۔ مجسمے کی تقریب ِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ روزا پارکس نے ایک متحرک زندگی گزاری۔
صدر اوباما کے الفاظ، ’صرف ایک لمحے میں اپنے سادہ سے عمل سے، انہوں (روزا پارکس) نے امریکہ کو بدلنے میں مدد دی۔۔۔ اور دنیا کو بھی۔‘