رسائی کے لنکس

ووٹنگ کے حق کے لیے امریکی خواتین کی جدوجہد کی بصری نمائش


واشنگٹن میں ووٹنگ کے حق کے لیے امریکی خواتین کی جدوجہد پر مبنی بصری نمائش۔ کا ایک پورٹریٹ
واشنگٹن میں ووٹنگ کے حق کے لیے امریکی خواتین کی جدوجہد پر مبنی بصری نمائش۔ کا ایک پورٹریٹ

امریکی خواتین نے 1920 میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل کیا۔ یہ تاریخی سنگ میل خواتین کی جانب سے سیاسی اختیار کے لیے ریاستی اور قومی سطح پر عشرو ں کی جدو جہد کا نتیجہ تھا۔ اس اہم موقع کی صد سالہ سالگرہ سے قبل واشنگٹن میں سمتھ سونین کی نیشنل پورٹریٹ گیلری میں ایک بڑی نمائش کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

جب امریکی تہذیب نے نئی صدی میں قدم رکھا تو اس سرزمین کی خواتین نے مردوں کے ساتھ مساوات کے اقدامات کا مطالبہ شروع کر دیا۔

خواتین کے لیے امریکہ میں ووٹ کے حق کی لڑائی کا راستہ ایک طویل اور دشوار راستہ تھا۔ سوزن بی انتھونی، الزبتھ سے ڈی سٹینٹن اور لوسی اسٹون جیسی سرگرم کارکنوں کی جدو جہد میں کئی عشرے لگے۔

اب واشنگٹن میں سمتھ سونین کی نیشنل پورٹریٹ گیلری میں ایک بڑی نئی نمائش میں خواتین کی جانب سے سیاسی انتخابات میں ووٹنگ کے حق کے حصول کے لیے 130 سال پر محیط تحریک کی ایک بصری تاریخ پیش کی جا رہی ہے۔

گیلری کی کیوریٹر کیٹ کلارک لی مے کہتی ہیں کہ خواتین کی جانب سے ووٹنگ کے حق کے حصول کی تحریک بس یوں ہی نہیں ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی انسداد غلامی کی تاریخی اور سیاسی بنیادیں تھیں۔ انہوں نے ترک مے نوشی کی تحریک سے شراکت داری کی، اور وہی درحقیقت وہ طریقہ تھا جس کی مدد سے انہوں نے ملک بھر میں تحریک کی ایک ابتدائی فضا تشکیل دی۔

سات کمروں میں پیش کی گئی اس نمائش میں 1832 سے 1965 تک کی 120 سے زیادہ چیزیں رکھی گئی ہیں۔​

خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں شامل سرگرم کارکن میری میکلوڈ بیتھون، جو ایک غلام کی بیٹی تھیں۔
خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں شامل سرگرم کارکن میری میکلوڈ بیتھون، جو ایک غلام کی بیٹی تھیں۔

فوٹو گرافک پورٹریٹس اور پینٹنگز، کتابی، پوسٹرز اور بینرز ان لوگوں اور واقعات کا ایک گہرا جائزہ فراہم کرتے ہیں جنہوں نے امریکی تاریخ ترتیب دینے میں مدد کی۔ مثال کے طور پر کتنے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ وکٹوریہ ووڈ ہول صدارتی انتخاب لڑنے والی پہلی خاتون تھیں۔ 1872 میں ایک تیسری جماعت کے ٹکٹ پر، یا یہ کہ سرگرم کارکن لوسی برنز نے وائٹ ہاؤس کے خلاف احتجاج کی بنا پر چھ مختلف قید کی سزائیں کاٹیں۔ اور یہ کہ امریکی خواتین کے ایک گروپ نے 1913 میں واشنگٹن میں پر امن مارچ کیا تھا۔ کیٹ کہتی ہیں کہ سیاہ فام عورتیں اسی طرح منظم ہو رہی تھیں جیسا کہ سفید فام عورتیں۔

اس نمائش میں افریقی امریکی خواتین کی چیزیں بھی رکھی گئی ہیں جنہیں سفید فام عورتیں ووٹنگ کے حق کے حصول کے لیے فعال بڑی تنظیموں سے اکثر خارج کر دیتی تھیں۔

نمائش کی کیوریٹر لی مے کہتی ہیں کہ یہ نمائش افریقی امریکی، آبائی امریکی، اور دوسری نسلوں کی خواتین کی سوانح حیات کے جائزے فراہم کر کے ووٹنگ کے حق کے لیے خواتین کی تحریک کی ایک زیادہ مکمل تاریخ پیش کرتی ہے، جس سے ہماری نصابی کتابوں میں موجود معروف واقعات کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

1917 میں وائٹ ہاؤس کے سامنے خواتین کے ووٹ کے حق کے لیے سرگرم خواتین کا مظاہرہ۔ اس کے تین سال بعد انہیں ووٹ کا حق دے دیا گیا۔
1917 میں وائٹ ہاؤس کے سامنے خواتین کے ووٹ کے حق کے لیے سرگرم خواتین کا مظاہرہ۔ اس کے تین سال بعد انہیں ووٹ کا حق دے دیا گیا۔

آج امریکی خواتین کے پاس زبردست سیاسی طاقت ہے۔ ان کا ایک بڑا ووٹنگ بلاک ہے۔ اس وقت 120 سے زیادہ خواتین کانگریس میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور بہت سے دوسرے بڑے قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔

اگر آپ 1830 سے، جہاں سے یہ نمائش شروع ہوتی ہے، آغاز کریں اور پھر ووٹنگ کے حق کے لیے خواتین کی تحریک کی کڑیوں کو آج تک کی کڑیوں سے جوڑیں تو آپ ایک بڑے تسلسل اور ایک عظیم سفر کے سلسلے کو دیکھ سکتے ہیں جو ان خواتین نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اختیار کرتے ہوئے صعوبتیں برداشت کیں۔

XS
SM
MD
LG