جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے ڈبلیو دبلیو ایف کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسان ہر سال قدرتی وسائل کی اتنی مقدار کررہاہے جسے دوبارہ پیدا کرنے میں زمین کو ڈیڑھ سال لگتا ہے۔ وسائل کے بے دریغ استعمال سے کرہ ارض کی شکل تبدیل ہورہی ہے اور 1970ء کے عشرے میں زمین پر موجود نباتات اور حیات میں جو تنوع اور رنگارنگی تھی، اس میں اب 30 فی صد تک کمی ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسانی ہوس کا سب سے زیادہ نشانہ استوائی خطے کی نباتات اور جنگلی حیات بن رہی ہے۔اور اگر انسان نے اپنا رویہ نہ بدلا تو زمین کے قدرتی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف کے ایک سائنس دان کولبی لوکس کا کہنا ہے کہ انسان کی مثال ایک ایسے پیٹو مہمان کی ہے جواپنے میزبان کے گھر میں موجود ہر چیز چٹ کرنے کے لیے بے تاب ہے۔
انہوں نے اس انسانی رویے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ہم اپنا کچن خالی کررہے ہیں۔ ہمیں ذرا بھی فکر نہیں ہے کہ ہمارے گھر کا لان سوکھ رہاہے اور اس جڑی بوٹیاں اگ رہی ہیں۔ ہم پھولوں کے بیچ ڈال رہے ہیں اور نہ ہی پودوں کو پانی دے رہے ہیں۔ حتی کہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بھی نہیں سمیٹ رہے۔ گویا ہم اپنے گھر کی شکل ایک اجڑے ہوئے آسیب زدہ مکان جیسی بنانا چاہتے ہیں۔
حالیہ عشروں میں زمین کے قدرتی توازن کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ماہرین کے پاس 2008ء تک کے مکمل اعدادوشمار موجود ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ان قدرتی وسائل کو جو زمین ہمارے لیے مسلسل پیدا کررہی ہے، زیادہ شرح سے استعمال کررہے ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہم ہرسال زمین سے جتنا کچھ نچوڑ رہے ہیں اور جتنی گندگی پھیلا رہے ہیں ، وسائل کی وہ مقدار دوبارہ پیدا کرنے اور اس گندگی کو تحلیل کرنے کے لیے اسے ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
قدرتی وسائل ہڑپ کرنے کی اس ہوس کا ایک اور نتیجہ آب وہوا کی تبدیلیوں کی شکل میں سامنے آرہاہے۔گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کے پگھلاؤ کی موجودہ رفتار کے پیش نظر آئندہ چار عشروں میں بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں سمیت شمالی اور جنوبی قطبی علاقوں میں بھی برف باقی نہیں رہے گی۔جس سے نہ صرف وہاں موجود جنگلی حیات کو شدید تفصان پہنچے گا بلکہ سمندروں کی سطح بلند ہونے سے کئی ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے۔
سیاچن میں ایک بڑا برفانی تودہ گرنے کے واقعے کو، جس میں دب کر سوا سو سے زیادہ فوجی لاپتا ہوگئے تھے، ماہرین زمین کے قدرتی توازن میں انسان کے پیدا کردہ بگاڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ ہمالیہ کے صرف اسی گلیشیئر پر پیش آیا ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے فوجی دستے موجود ہیں۔
تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ 1970ء کے عشرے میں ہمارے پاس نباتات، اور جنگلی حیات کی شکل میں جس قدر وسائل موجود تھے ، ان میں اب 30 فی صدتک کمی آچکی ہے۔ جب کہ خط استوا پر واقع ممالک میں قدرتی وسائل کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 60 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ان علاقوں میں تازہ پانی میں پائے جانے والی مچھلیوں اور دیگر جانوروں کی تعداد 40 برس پہلے کے مقابلے میں 70 فی صد تک کم ہوچکی ہے۔
50 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1970ء اور 2008ء کے درمیانی عرصے میں دنیا بھر میں مجموعی طورپر جنگلی حیات کی آبادی 25 فی صد تک کم ہوئی ہے جب کہ سمندری حیات میں کمی کا یہ تخمینہ 20 فی صدہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ1970ء میں انسانی آبادی تین ارب 70 کروڑ کے لگ بھگ تھی جو 2011ء میں سات ارب کے ہندسے سے آگے نکل گئی ۔ گویا 40 سال میں کرہ ا رض پر انسانوں کی تعداد تقریباً دوگنی ہوگئی جب کہ وسائل میں اضافے کی رفتار سست رہی۔
انسان جس تیزی سے زمین کے قدرتی وسائل کھارہاہے، زمین بھی اس پر عرصہ حیات تنگ کرتی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ کرہ ارض کے قدرتی تنوع اور توازن میں پیدا ہونے والے بگاڑ کاسلسلہ جاری رہاتو اس صدی کے آخر تک موسموں کی شدت زندگی گذارنا دوبھر کردے گی اور انسان کو کائنات میں اپنے لیے نیا گھر تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
رپورٹ میں ایک گوشوارہ بھی شامل کیا گیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کونسے ممالک اپنی آبادی کے تناسب سے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں فی کس زیادہ وسائل ہڑپ کررہے ہیں۔ 25 ممالک کی اس فہرست میں قطر پہلے نمبر پر ہے۔ جب کہ اس کے بعد کویت ، متحدہ عرب امارات، ڈنمارک اور امریکہ کے نام ہیں۔ یہ ممالک اپنی دولت کے باعث وسائل کا بڑا حصہ حاصل کرلیتے ہیں۔
تقریباً دوسوممالک کی فہرست میں زمین سے اپنے لیے فی کس کم ترین حصہ وصول کرنے والے ملکوں میں پہلا نام فلسطین کاہے۔ اس کے بعد بالترتیب مشرقی تیمور،افغانستان، ہیٹی، اریٹیریا، روانڈا اور بنگلہ دیش ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا شمار بھی فی کس کم وسائل استعمال کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبرآٹھواں اور بھارت کا پندرہواں ہے۔