واشنگٹن —
نمونیا کے باعث ہر سال دنیا بھر میں 10 لاکھ بچے فوت ہو جاتے ہیں۔ کم سن بچوں کو لگنے والی یہ واحد بیماری ہے جس سے عالمی سطح پر سب سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں۔
منگل کو ’عالمی یوم نمونیا‘ منایا جا رہا ہے۔ صحت سے متعلق اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اِن اموات کو معمولی لیکن مؤثر قسم کے طور طریقے اپنانے کے ذریعےرفع دفع کیا جا سکتا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کےنمائندے، جو ڈی کپوا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سال ’عالمی یوم ِنمونیا‘ کا عنوان ’نمونیا سے کم عمری کی اموات اور بچاؤ کی تدابیر‘ ہے۔
ڈاکٹر الزبیتھ میسن عالمی ادارہٴ صحت میں نوزائدہ بچوں اور نوجوانوں کی صحت کی سربراہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ نمونیا پھیپھڑوں کا انفیکشن ہے، جس میں دراصل پھیپھڑے کی شریانیں انفیکشن زدہ ہو جاتی ہیں، اور اس طرح، سانس کے ذریعے جو آکسیجن ہم لیتے ہیں وہ خون کی گردش کا حصہ نہیں بن پاتی۔
اس لیے بچے کا سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، انفیکشن بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
نمونیا کی وہ قسم جو ہلاکت کا سبب بنتی ہے، وہ اکثر بیکٹیریائی انفیکشن ہوتا ہے، حالانکہ یہ بیماری وائرس کی مختلف اقسام کے باعث لگتی ہے۔
ڈاکٹر الزبیتھ کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ برس کے10لاکھ سے زیادہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جب کہ نمونیا کی بیماری لگنے والے بچوں کی کُل تعداد اس سے سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی، ایک ارب بچوں کو نمونیا کی بیماری لگتی ہے۔ خوش قسمتی سے زیادہ تعداد کو ضروری اینٹی بایوٹک ادویات دستیاب ہوتی ہیں، اس لیے وہ بچ جاتے ہیں۔
نمونیا کے باعث زیادہ تر اموات ترقی پذیر ملکوں میں واقع ہوتی ہیں جہاں ادویات تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ بچہ جتنا کم عمر ہوگا، اُتنا ہی اُسے بیماری لگنے کا احتمال ہوگا۔ پھر یہ کہ اگر وہ کمزور ہے یا ایچ آئی وی ایڈز وائرس کی زد میں ہے ،تو یہ بھی اُس کی موت کا اضافی سبب ہوگا۔
ڈاکٹر مارک ینگ، یونیسیف میں صحت کے سینئر اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نمونیا سے ہونے والی کئی اموات کا بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔
منگل کو ’عالمی یوم نمونیا‘ منایا جا رہا ہے۔ صحت سے متعلق اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اِن اموات کو معمولی لیکن مؤثر قسم کے طور طریقے اپنانے کے ذریعےرفع دفع کیا جا سکتا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کےنمائندے، جو ڈی کپوا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سال ’عالمی یوم ِنمونیا‘ کا عنوان ’نمونیا سے کم عمری کی اموات اور بچاؤ کی تدابیر‘ ہے۔
ڈاکٹر الزبیتھ میسن عالمی ادارہٴ صحت میں نوزائدہ بچوں اور نوجوانوں کی صحت کی سربراہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ نمونیا پھیپھڑوں کا انفیکشن ہے، جس میں دراصل پھیپھڑے کی شریانیں انفیکشن زدہ ہو جاتی ہیں، اور اس طرح، سانس کے ذریعے جو آکسیجن ہم لیتے ہیں وہ خون کی گردش کا حصہ نہیں بن پاتی۔
اس لیے بچے کا سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، انفیکشن بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
نمونیا کی وہ قسم جو ہلاکت کا سبب بنتی ہے، وہ اکثر بیکٹیریائی انفیکشن ہوتا ہے، حالانکہ یہ بیماری وائرس کی مختلف اقسام کے باعث لگتی ہے۔
ڈاکٹر الزبیتھ کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ برس کے10لاکھ سے زیادہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جب کہ نمونیا کی بیماری لگنے والے بچوں کی کُل تعداد اس سے سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی، ایک ارب بچوں کو نمونیا کی بیماری لگتی ہے۔ خوش قسمتی سے زیادہ تعداد کو ضروری اینٹی بایوٹک ادویات دستیاب ہوتی ہیں، اس لیے وہ بچ جاتے ہیں۔
نمونیا کے باعث زیادہ تر اموات ترقی پذیر ملکوں میں واقع ہوتی ہیں جہاں ادویات تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ بچہ جتنا کم عمر ہوگا، اُتنا ہی اُسے بیماری لگنے کا احتمال ہوگا۔ پھر یہ کہ اگر وہ کمزور ہے یا ایچ آئی وی ایڈز وائرس کی زد میں ہے ،تو یہ بھی اُس کی موت کا اضافی سبب ہوگا۔
ڈاکٹر مارک ینگ، یونیسیف میں صحت کے سینئر اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نمونیا سے ہونے والی کئی اموات کا بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔