’یوم ِعالمی پناہ گزیں‘ کے موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے گذشتہ سال عالمی تنازعات اور جبر و ستم کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہونے والے تقریباً چھ کروڑ افراد کی حالت زار کو یاد رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ہفتے کو ایک بیان میں، مسٹر بان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ انسانوں کے بارے میں ہماری مشترکہ قدروں کی عزت کرتے ہوئے، رواداری اور تنوع کےجذبات کو فروغ دیا جائے۔
اُنھوں نے پناہ گزینوں کی اس بڑی نقل مکانی کا سبب شام میں جاری تنازعے اور عراق، یوکرین، جنوبی سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ، نائجیریا اور پاکستان کے کچھ حصوں کے بحران کو قرار دیا۔
بقول اُن کے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’آج 122 انسانوں میں سے ایک یا تو پناہ گزیں ہے، اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والا شخص ہے یا پھر سیاسی پناہ کی تلاش میں ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ 2014ء میں اوسطاً ہر روز 42500 افراد پناہ گزیں بنے، جب کہ یہ شرح گذشتہ چار سال میں چار گنا بڑھ گئی ہے۔
مسٹر بان نے اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی کہ گذشتہ سال اپنے گھروں کو واپس جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد تین دہائیوں کی کم ترین سطح پر تھی۔
امریکی صدر براک اوباما نے جمعے کو ایک بیان میں اس دِن منانے کو امریکہ کے لیے ایک سنجیدہ موقع قرار دیا، ’تاکہ ہم بین الاقوامی برادری کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان انسانوں کی زندگی کی حرمت، قدر اور صلاحیت کو تسلیم کرنے کی طرف متوجہ ہوں‘۔
مسٹر اوباما کے بقول، ’کچھ تصاویر میں یہ افراد یا تو سرحد پر چوکیوں پر انتظار کر رہے ہیں، خیموں کی قطار میں کھڑے ہیں، سمندر میں کشتیوں میں سوار ہیں؛ جب کہ دیگر لوگ بڑے شہروں کے کونے میں جمع ہیں، ہوسکتا ہے کہ اُن پر کسی کی نظر ہی نہ پڑے‘۔
جنوب مشرقی ترکی میں ہفتے کے روز اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی، انجلینا جولی نے شام کی سرحد کے ساتھ پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کیا، اور بعد ازں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بھونچال کے ’خوفناک حقائق‘ کو تسلیم کرے۔
اُنھوں نے پناہ گزینوں کے بحرانوں کو انسانوں کی مشکلات اورمنتقلی کی ایک آفت قرار دیا؛ اور کہا کہ محض امداد دینا اس بحران کے حل کے لیے کافی نہیں۔ بقول اُن کے، ’اِسے سفارت کاوی اور قانون کے ذریعے کنٹرول کیا جانا چاہیئے‘۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیں (یو این ایچ سی آر) نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ سال پانچ کروڑ 12 لاکھ پناہ گزینوں کے مقابلے میں اس سال چھ لاکھ کے قریب لوگ پناہ گزیں بنے، جن میں سے زیادہ تر جان بچا کر سلامتی کی تلاش میں بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔