عبداللہ، کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں رہتا ہے۔ وہی کراچی جو روشنوں کا شہر کہلاتا ہے۔۔ لیکن، عبداللہ کے لئے روشنیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
اسے ہر روز ۔۔منہ اندھیرے اٹھ کر جب محلے، گلی، علاقے اور جان پہچان والوں کی نظروں سے بچ کر کبھی جھاڑیوں کی آڑ میں تو کبھی گڑھوں اور کھڈوں میں رفع حاجت کے لئے جانا پڑتا ہے تو اسے سخت کوفت ہوتی ہے۔
کبھی کبھی تو اسے پلاسٹک کے تھیلوں سے بھی کام چلانا پڑتا ہے۔ایسے میں اسے سخت کراہیت آتی ہے۔ لیکن، وہ مجبور ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ آج بھی صدیوں سے آباد کسی پسماندہ گاوٴں میں رہ رہا ہے۔
عبداللہ پچھلے دو ہفتوں سے مزید فکرمند ہے۔۔ نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرد ہواوٴں نے کراچی کا رخ کرلیا ہے۔ وہ پریشان ہے کہ اسے پچھلے موسموں کی طرح اس بار بھی برفیلے دسمبر اور کڑکتی جنوری میں اسی طرح گھر سے دور رفع حاجت کے لئے آنا پڑے گا۔۔۔ وہ سوچتا ہے کہ آخر کب تک ایسا چلے گا؟
سرجانی ٹاوٴن سے کچھ آگے، خدا کی بستی سے کئی میل دور مگر کراچی کی حدود میں آنے والے علاقے کا نوجوان باسی۔۔صرف عبداللہ ہی اس پریشانی میں مبتلا نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کی تعداد ملک کے ہر صوبے اور ہر کونے میں موجود ہے۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی عہدیدار صدف رحمٰن نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں انگنت کچی بستیاں ہیں جن میں محفوظ، جراثیم سے پاک اور انفرادی بیت الخلا کا کوئی تصور ہی نہیں۔ کچھ مہینوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ کراچی میں نو تعمیر پلوں کے نیچے آکر بسنے والے بے گھر غریبوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں۔ یہ بیت الخلا کہاں تعمیر کرسکیں گے۔ ناگن چورنگی، گلشن اقبال، لیاقت آباد اور قیوم آباد جیسے درجنوں علاقوں میں قائم پلوں کے نیچے بیت الخلا کے بغیر رہنے والی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔“
حیدری مارکیٹ کی یونین کے ایک رکن باسط کا کہنا ہے کہ حیدری میں کم و بیش 5ہزار دکانیں ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں دکاندار اور ملازم بارہ تیرہ گھنٹے موجود رہتے ہیں، جبکہ دن بھر میں پچاس ہزار سے زائد خریدار اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن، اس تناسب سے مارکیٹ میں بیت الخلا موجود نہیں۔ ایک تو قلیل تعداد اس پر ان کی حالت نہایت خراب ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ پلازہ کی تو بات میں نہیں کررہا۔ لیکن، جو قدیم مارکیٹیں ہیں ان کے دکاندار اور ملازمین رفع حاجت کے لئے یا تو قریبی مساجد کا رخ کرتے ہیں یا کھلے نالوں ۔۔کونوں اور دیواروں کی آڑ لیتے ہیں۔‘
ایمپریس مارکیٹ صدر میں واقع مارکیٹوں کا حال بھی حیدری سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں جمشید پارک میں واقع ایک مسجد کے قریب صرف ایک بیت الخلا موجود ہے، جبکہ صدر میں یومیہ لاکھوں افراد آتے ہیں۔ لیکن، انہیں جب بھی بیت الخلا کی ضرورت ہوتی ہے وہ کھلی جگہوں کو ہی استعمال میں لاتے ہیں خاص کر پیشاب کرنے کے لئے۔
کراچی میں پبلک ٹوائلٹ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے دور میں نجی شعبے کے تعاون سے کچھ جگہوں پر پبلک ٹوائلٹ تعمیر کئے گئے تھے۔ لیکن، مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور شہری حکومتوں کی عدم موجودگی نے اس منصوبے کے وجود کو ہی ختم کردیا ہے۔
ٹوائلٹ سے محرومی ۔۔
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار ترقی اور چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی ’ٹوائلٹ‘ سے محروم ہے۔ اس مقصد کے لئے زیادہ تر ریلوے لائنوں، کھیتوں، میدانوں اور دیگر کھلی جگہوں کو زیراستعمال لایا جاتا ہے۔ کھلی جگہیں خواتین اور لڑکیوں پر جانوروں اور ’شیطانی حملوں‘ سے غیر محفوظ ہیں۔
سال 2010ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سینی ٹیشن اور پانی کو ’انسان کا بنیادی حق‘ قرار دیتے ہوئے ہر سال 19نومبر کو ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منانے کا اعلان کیا تھا۔
اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ لوگوں کو صفائی اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
حیران کُن اعداد و شمار
بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’واٹر ایڈ‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کے 2 ارب 50لاکھ لوگ ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ اس تعداد پر غور کریں تو یہ حیران کن نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا کے ہر تیسرے شخص کے پاس صاف ستھرے اور پرائیوئٹ ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔
انتہائی تلخ اور افسوسناک صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً سات لاکھ بچے ہیضے سے ہلاک ہوتے ہیں۔ یعنی، یومیہ 2ہزار افراد۔۔ ہیضہ غیر محفوظ پانی، انسانی فضلے سے پیدا ہونے والے جراثیم اور گندگی آلودہ پانی کے باعث پھیلتا ہے۔
ہر سال تقریباً60لاکھ بچے ایسے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں۔ لمحہٴ فکریہ یہ ہے کہ آج دنیا میں ٹوائلٹس سے زیادہ موبائل فونز ہیں۔
بیت الخلا کیوں ضروری؟
ہوسکتا ہے یہ سوال آپ کو ’پاگل پن‘ لگے۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ٹوائلٹس کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے۔ اگر ٹوائلٹس محفوظ، جراثیم سے پاک، صاف ستھرے اور پانی کی سہولت رکھتے ہوں تو ماحول اور معاشرہ تو صاف ستھرا ہوگا ہی بیماریاں بھی قریب نہیں آئیں گی۔
اسے ہر روز ۔۔منہ اندھیرے اٹھ کر جب محلے، گلی، علاقے اور جان پہچان والوں کی نظروں سے بچ کر کبھی جھاڑیوں کی آڑ میں تو کبھی گڑھوں اور کھڈوں میں رفع حاجت کے لئے جانا پڑتا ہے تو اسے سخت کوفت ہوتی ہے۔
کبھی کبھی تو اسے پلاسٹک کے تھیلوں سے بھی کام چلانا پڑتا ہے۔ایسے میں اسے سخت کراہیت آتی ہے۔ لیکن، وہ مجبور ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ آج بھی صدیوں سے آباد کسی پسماندہ گاوٴں میں رہ رہا ہے۔
عبداللہ پچھلے دو ہفتوں سے مزید فکرمند ہے۔۔ نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی سرد ہواوٴں نے کراچی کا رخ کرلیا ہے۔ وہ پریشان ہے کہ اسے پچھلے موسموں کی طرح اس بار بھی برفیلے دسمبر اور کڑکتی جنوری میں اسی طرح گھر سے دور رفع حاجت کے لئے آنا پڑے گا۔۔۔ وہ سوچتا ہے کہ آخر کب تک ایسا چلے گا؟
سرجانی ٹاوٴن سے کچھ آگے، خدا کی بستی سے کئی میل دور مگر کراچی کی حدود میں آنے والے علاقے کا نوجوان باسی۔۔صرف عبداللہ ہی اس پریشانی میں مبتلا نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کی تعداد ملک کے ہر صوبے اور ہر کونے میں موجود ہے۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی عہدیدار صدف رحمٰن نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں انگنت کچی بستیاں ہیں جن میں محفوظ، جراثیم سے پاک اور انفرادی بیت الخلا کا کوئی تصور ہی نہیں۔ کچھ مہینوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ کراچی میں نو تعمیر پلوں کے نیچے آکر بسنے والے بے گھر غریبوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں۔ یہ بیت الخلا کہاں تعمیر کرسکیں گے۔ ناگن چورنگی، گلشن اقبال، لیاقت آباد اور قیوم آباد جیسے درجنوں علاقوں میں قائم پلوں کے نیچے بیت الخلا کے بغیر رہنے والی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔“
حیدری مارکیٹ کی یونین کے ایک رکن باسط کا کہنا ہے کہ حیدری میں کم و بیش 5ہزار دکانیں ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں دکاندار اور ملازم بارہ تیرہ گھنٹے موجود رہتے ہیں، جبکہ دن بھر میں پچاس ہزار سے زائد خریدار اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن، اس تناسب سے مارکیٹ میں بیت الخلا موجود نہیں۔ ایک تو قلیل تعداد اس پر ان کی حالت نہایت خراب ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ پلازہ کی تو بات میں نہیں کررہا۔ لیکن، جو قدیم مارکیٹیں ہیں ان کے دکاندار اور ملازمین رفع حاجت کے لئے یا تو قریبی مساجد کا رخ کرتے ہیں یا کھلے نالوں ۔۔کونوں اور دیواروں کی آڑ لیتے ہیں۔‘
ایمپریس مارکیٹ صدر میں واقع مارکیٹوں کا حال بھی حیدری سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں جمشید پارک میں واقع ایک مسجد کے قریب صرف ایک بیت الخلا موجود ہے، جبکہ صدر میں یومیہ لاکھوں افراد آتے ہیں۔ لیکن، انہیں جب بھی بیت الخلا کی ضرورت ہوتی ہے وہ کھلی جگہوں کو ہی استعمال میں لاتے ہیں خاص کر پیشاب کرنے کے لئے۔
کراچی میں پبلک ٹوائلٹ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے دور میں نجی شعبے کے تعاون سے کچھ جگہوں پر پبلک ٹوائلٹ تعمیر کئے گئے تھے۔ لیکن، مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور شہری حکومتوں کی عدم موجودگی نے اس منصوبے کے وجود کو ہی ختم کردیا ہے۔
ٹوائلٹ سے محرومی ۔۔
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار ترقی اور چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی ’ٹوائلٹ‘ سے محروم ہے۔ اس مقصد کے لئے زیادہ تر ریلوے لائنوں، کھیتوں، میدانوں اور دیگر کھلی جگہوں کو زیراستعمال لایا جاتا ہے۔ کھلی جگہیں خواتین اور لڑکیوں پر جانوروں اور ’شیطانی حملوں‘ سے غیر محفوظ ہیں۔
سال 2010ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سینی ٹیشن اور پانی کو ’انسان کا بنیادی حق‘ قرار دیتے ہوئے ہر سال 19نومبر کو ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منانے کا اعلان کیا تھا۔
اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ لوگوں کو صفائی اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
حیران کُن اعداد و شمار
بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’واٹر ایڈ‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کے 2 ارب 50لاکھ لوگ ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ اس تعداد پر غور کریں تو یہ حیران کن نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا کے ہر تیسرے شخص کے پاس صاف ستھرے اور پرائیوئٹ ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔
انتہائی تلخ اور افسوسناک صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً سات لاکھ بچے ہیضے سے ہلاک ہوتے ہیں۔ یعنی، یومیہ 2ہزار افراد۔۔ ہیضہ غیر محفوظ پانی، انسانی فضلے سے پیدا ہونے والے جراثیم اور گندگی آلودہ پانی کے باعث پھیلتا ہے۔
ہر سال تقریباً60لاکھ بچے ایسے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں۔ لمحہٴ فکریہ یہ ہے کہ آج دنیا میں ٹوائلٹس سے زیادہ موبائل فونز ہیں۔
بیت الخلا کیوں ضروری؟
ہوسکتا ہے یہ سوال آپ کو ’پاگل پن‘ لگے۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ٹوائلٹس کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے۔ اگر ٹوائلٹس محفوظ، جراثیم سے پاک، صاف ستھرے اور پانی کی سہولت رکھتے ہوں تو ماحول اور معاشرہ تو صاف ستھرا ہوگا ہی بیماریاں بھی قریب نہیں آئیں گی۔