’میرے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہی ہے کہ جو زمین سے پھُوٹنے والی خُوشبو کا یا خاص قسم کے خطے میں رہنے والوں کا ایک ذہن بن جاتا ہے، اس کو نہ تو آپ خرید سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں، نہ ڈرا سکتے ہیں اور نہ ہی اِس سے آپ کسی کو الگ کر سکتے ہیں‘۔۔۔ یہ کہنا تھا آمنہ مفتی کا جن سے ہم گفتگو کر رہے تھے ان کے حالیہ ڈرامے ’الو برائے فروخت نہیں‘ کے بارے میں۔۔۔
ایک ایسے وقت میں جب ہر ٹی وی چینل پر لگنے والے ہر ڈرامے کی کہانی ساس بہو کی چپقلش، بہنوں کی ناراضی، سوکنوں کی سازش، بیٹے کی رنجش، سسر کی سختی یا پھر کوئی دنیاوی چوٹ کھا کر مالک ِ حقیقی کی طرف پلٹنے جیسے موضوعات کے ارد گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے، ’الو برائے فروخت نہیں‘ جیسے ڈرامے نے یقیناً دیکھنے والوں کو کچھ نیا اور کچھ ہٹ کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامہ اختتام تک ناظرین کو اپنی گرفت میں لیے رکھنے میں کامیاب رہا۔
ڈرامے کی مصنفہ آمنہ مفتی سے گفتگو میں ہم نے اس ڈرامے کے اچُھوتے نام کی بابت سوال کیا تو آمنہ کا کہنا تھا، ’الّو دراصل ایک علامت ہے۔۔۔ الّو علامت ہے ویرانے کی، جادو کی، عقلمندی کی ۔۔۔ اور یہاں پر میں نے الّو کو عقل یا لوک دانش کے طور پر استعمال کیا ہے‘۔
مگر ریٹنگ کے اس دور میں جب ہر ڈرامہ ’مصالحہ‘ کے نام پر بنتا اور بکتا ہے، ’لوک دانش‘ کی گنجائش کتنی ہے؟ اور کیا ہمارے لوگ ’لوک دانش‘ کو سمجھنے اور جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ۔۔۔ آمنہ اس حوالے سے قدرے مختلف خیالات رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’ہمارے لوگ بہت باصلاحیت ہیں اور مشکل چیزیں بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پی ٹی وی پر فلسفیانہ موضوعات پر ڈرامے لکھے گئے لیکن انہیں پذیرائی ملی۔ اس لیے یہ کہنا کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا، غلط ہے۔ آپ دیکھیئے گدھا گاڑی پر، قلفی کی ریڑھی پر یا پھر ٹرک پر بعض اوقات آپ کو ’پھڑکتا‘ ہوا شعر یا کوئی خیال دیکھنے کو ملتا ہے۔ بیشک ہجّے غلط ہوں گے مگر اصل بات اس خیال کی خوبصورتی ہے جو ایک عام شخص نے لکھا ہوتا ہے۔ یہی رویہ ڈرامہ دیکھنے والے کا بھی ہے۔ آپ اچھی چیز دکھائیں گے تو وہ ضرور سمجھے گا، جذب کرے گا۔ گویا جو کچھ آپ ٹی وی پر دکھائیں گے، وہی آپ کی قوم کا مزاج بنتا جائے گا‘۔
کیا واقعی ہمارے ٹی وی ڈرامے ہمارے قوم کے مزاج کے عکاس ہیں یا معاملہ کچھ اور بھی ہے؟ ۔۔۔ آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ، ’آج کل ادیب نہیں لکھتے بلکہ انہیں بلا کر ’سٹوری لائن‘ دی جاتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ دو فلمیں ہیں اور ایک ڈرامہ ہے، اسے مکس کیجیئے اور ایک سیریل تیار کیجیئے۔ حتیٰ کہ بڑے اور نامور ادیبوں سے بھی انہی خطوط پر لکھوایا جاتا ہے‘۔۔۔
مگر ایسے میں اُن لکھاریوں کی شنوائی کہاں تک ہوتی ہے جو آج بھی اپنی تحریر میں کسی دوسرے کے خیال کی آمیزش سے گریز برتتے ہیں، کرداروں کی بُنت پر وقت لگاتے ہیں اور منظر نگاری کے لیے گہرے مشاہدے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔ آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ، ’ایسے ادیبوں کی تعداد کم ہے۔ خود میں نے اپنی ایک دو کہانیاں لوگوں کو ڈرامہ بنانے کے لیے آفر کیں۔ مگر ڈرامہ مارکیٹ میں فرمائش کی جاتی ہے یہ بھی اچھی ہیں مگر کچھ ’مزیدار‘ سا لکھیں دراصل ایک زمانے میں آمر کا جبر تھا، آج ’پرائیویٹ چینلز‘ کا ہے!‘
تو پھر ایک ایسے ماحول میں ’الو برائے فروخت نہیں‘ کا لکھنا مشکل نہیں تھا۔ ایک ادیب ہونے کے ناطے آپ نے یہ تجربہ کیوں کیا؟ ۔۔۔ اس کا جواب آمنہ مفتی نے کچھ یوں دیا، ’’میں نے یہ ڈرامہ پذیرائی کے لیے نہیں لکھا تھا۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ لوگ اسے اتنا سراہیں گے۔ دراصل ’الو برائے فروخت نہیں‘ کے کردار ہمیشہ مجھ سے کہتے رہے کہ ہمارے بارے میں لکھو۔‘‘
آمنہ مفتی سے کی گئی تفصیلی گفتگو نیچے دئیے گئے آڈیو لنک میں سنیئے۔
ایک ایسے وقت میں جب ہر ٹی وی چینل پر لگنے والے ہر ڈرامے کی کہانی ساس بہو کی چپقلش، بہنوں کی ناراضی، سوکنوں کی سازش، بیٹے کی رنجش، سسر کی سختی یا پھر کوئی دنیاوی چوٹ کھا کر مالک ِ حقیقی کی طرف پلٹنے جیسے موضوعات کے ارد گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے، ’الو برائے فروخت نہیں‘ جیسے ڈرامے نے یقیناً دیکھنے والوں کو کچھ نیا اور کچھ ہٹ کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامہ اختتام تک ناظرین کو اپنی گرفت میں لیے رکھنے میں کامیاب رہا۔
ڈرامے کی مصنفہ آمنہ مفتی سے گفتگو میں ہم نے اس ڈرامے کے اچُھوتے نام کی بابت سوال کیا تو آمنہ کا کہنا تھا، ’الّو دراصل ایک علامت ہے۔۔۔ الّو علامت ہے ویرانے کی، جادو کی، عقلمندی کی ۔۔۔ اور یہاں پر میں نے الّو کو عقل یا لوک دانش کے طور پر استعمال کیا ہے‘۔
مگر ریٹنگ کے اس دور میں جب ہر ڈرامہ ’مصالحہ‘ کے نام پر بنتا اور بکتا ہے، ’لوک دانش‘ کی گنجائش کتنی ہے؟ اور کیا ہمارے لوگ ’لوک دانش‘ کو سمجھنے اور جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ۔۔۔ آمنہ اس حوالے سے قدرے مختلف خیالات رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’ہمارے لوگ بہت باصلاحیت ہیں اور مشکل چیزیں بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پی ٹی وی پر فلسفیانہ موضوعات پر ڈرامے لکھے گئے لیکن انہیں پذیرائی ملی۔ اس لیے یہ کہنا کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا، غلط ہے۔ آپ دیکھیئے گدھا گاڑی پر، قلفی کی ریڑھی پر یا پھر ٹرک پر بعض اوقات آپ کو ’پھڑکتا‘ ہوا شعر یا کوئی خیال دیکھنے کو ملتا ہے۔ بیشک ہجّے غلط ہوں گے مگر اصل بات اس خیال کی خوبصورتی ہے جو ایک عام شخص نے لکھا ہوتا ہے۔ یہی رویہ ڈرامہ دیکھنے والے کا بھی ہے۔ آپ اچھی چیز دکھائیں گے تو وہ ضرور سمجھے گا، جذب کرے گا۔ گویا جو کچھ آپ ٹی وی پر دکھائیں گے، وہی آپ کی قوم کا مزاج بنتا جائے گا‘۔
کیا واقعی ہمارے ٹی وی ڈرامے ہمارے قوم کے مزاج کے عکاس ہیں یا معاملہ کچھ اور بھی ہے؟ ۔۔۔ آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ، ’آج کل ادیب نہیں لکھتے بلکہ انہیں بلا کر ’سٹوری لائن‘ دی جاتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ دو فلمیں ہیں اور ایک ڈرامہ ہے، اسے مکس کیجیئے اور ایک سیریل تیار کیجیئے۔ حتیٰ کہ بڑے اور نامور ادیبوں سے بھی انہی خطوط پر لکھوایا جاتا ہے‘۔۔۔
مگر ایسے میں اُن لکھاریوں کی شنوائی کہاں تک ہوتی ہے جو آج بھی اپنی تحریر میں کسی دوسرے کے خیال کی آمیزش سے گریز برتتے ہیں، کرداروں کی بُنت پر وقت لگاتے ہیں اور منظر نگاری کے لیے گہرے مشاہدے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔ آمنہ مفتی کہتی ہیں کہ، ’ایسے ادیبوں کی تعداد کم ہے۔ خود میں نے اپنی ایک دو کہانیاں لوگوں کو ڈرامہ بنانے کے لیے آفر کیں۔ مگر ڈرامہ مارکیٹ میں فرمائش کی جاتی ہے یہ بھی اچھی ہیں مگر کچھ ’مزیدار‘ سا لکھیں دراصل ایک زمانے میں آمر کا جبر تھا، آج ’پرائیویٹ چینلز‘ کا ہے!‘
تو پھر ایک ایسے ماحول میں ’الو برائے فروخت نہیں‘ کا لکھنا مشکل نہیں تھا۔ ایک ادیب ہونے کے ناطے آپ نے یہ تجربہ کیوں کیا؟ ۔۔۔ اس کا جواب آمنہ مفتی نے کچھ یوں دیا، ’’میں نے یہ ڈرامہ پذیرائی کے لیے نہیں لکھا تھا۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ لوگ اسے اتنا سراہیں گے۔ دراصل ’الو برائے فروخت نہیں‘ کے کردار ہمیشہ مجھ سے کہتے رہے کہ ہمارے بارے میں لکھو۔‘‘
آمنہ مفتی سے کی گئی تفصیلی گفتگو نیچے دئیے گئے آڈیو لنک میں سنیئے۔