پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جہاں پہلے ہی پروڈیوسرز اور اداکاروں کی تنظیمیں موجود ہیں وہیں اب مصنفین کے مسائل کے حل کے لیے اسکرین رائٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان بھی قائم کر دی گئی ہے۔
اسکرین رائٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کا مقصد فلم اور ٹی وی کے اسکرپٹ لکھنے والے مصنفین کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا ایک مناسب پلیٹ فارم فراہم کرنا قرار دیا جا رہا ہے۔
ایسوسی ایشن کا قیام رواں ماہ ہوا ہے جس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے صدر معروف رائٹر واسع چوہدری ہیں جب کہ مصنفہ عمیرہ احمد کو ایسوسی ایشن کی نائب صدر بنایا گیا ہے۔
اسکرین رائٹرز ایسوسی ایشن کے قیام کی بنیاد ایک شکایت پر رکھی گئی جو کینسر سے لڑنے والی اداکارہ نائلہ جعفری نے کی تھی۔
اداکارہ نائلہ جعفری نے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان ٹیلی ویژن سے درخواست کی تھی کہ انہیں ان کی رائلٹی کے پیسے دیے جائیں تا کہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید خان نے پارلیمنٹ سے رائلٹی کے بل کو پاس کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔
سینیٹر فیصل جاوید نے پہلے مرحلے میں فن کاروں کی نمائندہ تنظیم سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت پروڈیوسروں اور اداکاروں کے پاس اپنی اپنی تنظیمیں تو تھیں لیکن اسکرین رائٹرز کے لیے کوئی تنظیم موجود نہیں تھی۔
اس ضمن میں نامور ڈرامہ نگار عاصمہ نبیل نے سواپ (اسکرین رائٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان) کے قیام کے لیے اپنے ساتھیوں، ہم عصروں اور سینئر مصنفین سے رابطہ کیا اور نہ صرف اس ایسوسی ایشن کی بنیاد پر رائے طلب کی بلکہ اسے فعال بنانے کے لیے 100 سے زائد اسکرین رائٹرز کو بھی قائل کر لیا۔
ایسوسی ایشن میں کون شامل ہے اور اِن کے عہدوں کا دورانیہ کتنا ہوگا؟
پاکستان کے کئی نامور ڈرامہ اور فلم رائٹرز اس ایسوسی ایشن کا حصہ ہیں جن میں سے کئی کو اس تنطیم میں ایک برس کے لیے عہدہ دیا گیا ہے۔
’سواپ‘ کے نام سے رجسٹر ہونے والی اس ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کی صدارت واسع چوہدری کو سونپی گئی ہے جب کہ نامور ڈرامہ نگار عمیرہ احمد اس کی نائب صدر ہوں گی۔
ایسوسی ایشن کے لیے ساجی گل کو سینئر سیکرٹری اور عاصمہ نبیل کو جوائنٹ سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔
ڈرامہ نگار ردا بلال اس تنطیم کی ترجمان اور انعام حسن سیکرٹری خزانہ ہوں گے جب کہ مشاورتی کونسل میں نامور ڈرامہ رائٹرز ظفر معراج، محمد احمد، آمنہ مفتی اور بی گل مشیر کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیں گی۔
پاکستان میں فلم اور ڈرامہ رائٹرز کے مسائل کیا ہیں؟
مشہور ڈرامہ 'خود غرض' تحریر کرنے والی مصنفہ اور ایسوسی ایشن کی ترجمان ردا بلال کا کہنا ہے کہ اسکرین رائٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان ڈرامہ اور فلموں کے اسکرپٹ لکھنے والوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بظاہر تو پاکستان میں رائٹرز کے مسائل نظر نہیں آتے، لیکن دراصل ان کے مسئلوں کی نوعیت اور تعداد کم نہیں ہے۔
ردا بلال نے کہا کہ ہمارے ٹی وی چینل مالکان نے معمول بنا لیا ہے کہ ایک ڈرامے سے آئیڈیا لے کر کسی اور سے اس پر کام کراتے ہیں یا پھر ایک رائٹر سے چند اقساط لکھوانے کے بعد کسی اور کی خدمات حاصل کر کے پہلے مصنف کو فارغ کر دیتے ہیں۔
ان کے بقول، پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اتنی بڑی نہیں ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی ڈرامے پر دو رائٹرز خفیہ طور پر کام کر رہے ہوں۔ یہاں سب کو ایک دوسرے کے بارے معلوم ہوتا ہے، لیکن ہمارے پروڈکشن ہاوسز اور چینل مالکان یہ بات نہیں سمجھتے۔
انہوں نے کہا کہ کئی ڈرامہ نگاروں کو شکوہ ہے کہ انہیں ادائیگی وقت پر نہیں ہوتی جب کہ کچھ سے ان کا آئیڈیا بلا معاوضہ ایک طرح سے چرا لیا جاتا ہے اور چند ایک تو آدھا کام کرنے کے بعد فارغ کر دیے جاتے ہیں۔
تنظیم کی ترجمان ردا بلال کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل کے زمانے میں اس قسم کے مسائل ہونا مضحکہ خیز اور افسوسناک ہیں اور اسی وجہ سے ہماری تنطیم ایسے مسائل پر آواز بلند کرے گی اور مسئلہ حل بھی کرائے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم ایسا کانٹریکٹ بھی متعارف کرانے کی کوشش کریں گے جس میں مصنفین کو بھی رائلٹی کا حصہ ملے کیوں کہ تخلیق ان کی ہوتی ہے لیکن انہیں اس کا کوئی حصہ دار نہیں سمجھتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس وقت ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں جہاں ٹی وی، فلم اور اسٹیج کے علاوہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی لوگوں میں مقبول ہو چکا ہے۔
ردا بلال نے بتایا کہ ٹی وی ڈرامے کی یوٹیوب سے حاصل ہونے والی آمدنی میں حصہ ہو یا کسی بھی پلیٹ فارم پر رقم کی بروقت ادائیگی، یہ سب ہماری ایسوسی ایشن کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
’اگر آرٹسٹ کا پیٹ نہیں بھرے گا تو وہ معیاری تخلیق بھی نہیں کر سکے گا‘
'سواپ' کے سیکریٹری خزانہ انعام حسن کا کہنا ہے کہ جن مسائل کو دنیا بھر میں پرانا سمجھا جاتا ہے وہ آج بھی پاکستان کی انڈسٹری کا حصہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آرٹسٹ کا پیٹ بھرا ہوا نہیں ہو گا تو وہ معیاری تخلیق بھی نہیں کر سکے گا۔
ان کے بقول، پاکستان میں کئی آرٹسٹ اچھا کام کرنے کے باوجود صرف اس وجہ سے کام کرتے رہتے ہیں تا کہ ان کا گھر چلتا رہے، دنیا بھر میں ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ وہاں کی ایسوسی ایشن اور تنظیمیں ان آرٹسٹوں کے حقوق کے لیے لڑتی بھی ہیں اور ساتھ کھڑی بھی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ ان تمام مسائل پر حکام سے بات کریں اور انہیں حل کرانے کی کوشش کرائیں۔
ڈرامہ سیریل 'بیلا پور کی ڈائن' کے لکھاری انعام حسن نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان میں اداکاروں، پروڈیوسروں اور رائٹرز کی ایسوسی ایشن فعال ہوں گی تو ممکن ہے کہ انٹرنیشنل اسٹریمنگ پلیٹ فارم نیٹ فلکس اور ایمیزون پرائم پاکستان کو سنجیدگی سے لیں۔
دوسری جانب تنظیم کی ترجمان ردا بلال نے کہا ہے کہ ایسوسی ایشن بناتے ہوئے اس کے عہدیداروں نے تمام مصنفین سے رابطہ کیا۔ کچھ نے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے فی الحال ایسوسی ایشن کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تو چند ایک نے کہا کہ وہ پہلے اس کے کام کرنے کے طریقے کو دیکھیں گے اور پھر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ معتبر نام جو اس وقت ایسو سی ایشن کا حصہ نہیں ہیں انہوں نے اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے اور ہر قسم کی معاونت کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔
ادھر انعام حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسکرپٹ رائٹرز تو ہیں لیکن کاپی رائٹ کا قانون رائج نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی مختلف رائٹرز ایک جیسی کہانی لکھ بیٹھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک اسکرپٹ لائبریری بن گئی تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔
انعام حسن کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدام اٹھائے جس سے پاکستان اور دنیا بھر کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے درمیان جو فرق ہے وہ ختم ہوجائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی جو لوگ ایسوسی ایشن کے ساتھ نہیں ہیں انہیں ایک موقع اور دیا جائے گا کہ وہ باقی اسکرپٹ رائٹرز کے ساتھ شامل ہو جائیں ورنہ بعد میں اگر ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن فیس بڑھ گئی تو دیر سے آنے والوں کا نقصان ہو گا۔