رسائی کے لنکس

سال 2014ء: پاکستانی سیاست، امن و امان کا مسئلہ حاوی رہا


ملک میں امن و امان کی عدم موجودگی پر، سال بھر عوام سراپا احتجاج بنے رہے۔۔۔۔ سال کا اختتام قریب تھا جب دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور امن و امان کے مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے، آپریشن ’ضرب عضب‘ کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کا فیصلہ کیا گیا

پاکستان میں سنہ 2014 میں دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششیں اور سیاسی عدم استحکام سب سے اہم موضوعات رہے۔

نئے سال کا آغاز طالبان سے مذاکرات کی خبروں سے ہوا، جب مولانا سمع الحق کو طالبان سے رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ تاکہ حکومت اور تحریک طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان امن کے لئے بات چیت کے ذریعے پیش رفت حاصل ہو سکے۔

اِسی سال، سابق صدر، جنرل (ر) پرویز مشرف پر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے اور مشرف کے ساتھ دوسروں پر بھی غداری کا مقدمہ چلانے جیسی آراٴ سامنے آئیں۔ اور آخرکار، شوکت عزیز، زاہد حامد اور جسٹس(ر) ڈوگر کو بھی بطور شریک ملزمان مقدمے میں شامل کرنے کی درخواست منظور کر لی گئی۔

مشرف کی بیماری اور سیکورٹی وجوہات کی بناٴپر مشرف کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر، متعدد بار، سابق صدر کے وکلا اور پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

مشرف کو پہلے امراض قلب کے اسپتال میں داخل کیا گیا، پھر اسلام آباد میں ان کے فارم ہاوٴس میں نظربند رکھا گیا۔ تاہم، تمام مقدمات میں ضمانت منظور ہونے کے بعد وہ کراچی منتقل ہوئے۔

ایک طرف اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے لئے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عدلیہ، سیاست دان اور تجزیہ کار بیانات دیتے رہے۔ لیکن، تاریخ پہ تاریخ کے سوا کچھ نہ ہوا۔ دوسری طرف، لاپتہ افراد کے لواحقین ان کا پتہ پوچھتے رہے۔

تاہم، بلوچستان وہ واحد صوبہ رہا جہاں بلدیاتی انتخابات کا ایک مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔

کوئٹہ میں زائرین کی بس پر، پشاور میں تبلیغی مرکز میں، راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب، کراچی میں رینجرز کے مرکز کے گرد و نواح اور واہگہ باڈر پر بم ھماکے کرنے والے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے، لیکن ہنگو میں طالبعلم اعتزاز حسن نے اپنی جان کی قربانی دے کر اسکول پر خودکش حملے کو ناکام بنایا۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے حق تلفی کے الزام پر دیہی اور شہری سندھ کی آبادی کے لئے سندھ ون اور سندھ ٹو بنانے کی تجویز پیش کی گئی جس پر سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے ’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘ کا نعرہ بلند کیا؛ جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارلحکومت کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آپریشن بھی جاری رہا اور ٹارگٹ کلنگ اور گینگ وار بھی۔

تھر میں قحط کے باعث، اموات جاری رہیں۔ لیکن، سندھ کی دو اہم جماعتوں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے بیچ فاصلے ختم ہوگئے اور ایم کیو ایم پھر سندھ حکومت میں شامل ہوئی۔

حکومت نے شمالی وزیرستان میں کسی حتمی آپریشن سے قبل امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کے لئے پہلے ایک اور پھر دوسری کمیٹی بنائی۔ لیکن، امن کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں اور وہاں تین سال بعد امریکہ سے اسٹریٹیجک مذاکرات بحال ہوئے۔

طالبان نے بھی کمیٹی بنا دی اور پھر حکومت اور طالبان میں مذاکرات، ملک میں بم دھماکے اور شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کا سلسلہ چلتا رہا۔ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی بھی ہوئی، لیکن پھر آخر کار دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن، ’ضرب عضب‘ کا فیصلہ کرلیا گیا، اور تحفظ پاکستان بل فورسز کے اختیارات اور بنیادی حقوق کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بننے کے باوجود منظور ہوگیا۔

نیٹو سپلائی کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کا خیبر پختونخواہ میں جاری دھرنا ختم ہوا اور پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کی باتیں ہوئیں، انسداد پولیو ٹیموں اور میڈیا پر حملے ہوئے۔ لیکن، سینئر صحافی حامد میر پر حملے اور جیو ٹی وی کی آئی ایس آئی پر الزام تراشی نے ایک نئی صورت حال کو جنم دیا، جس میں جیو پر تنقید، مقدمات اور اس کی بندش کے لئے مظاہرے ہوتے رہے۔

عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسلام آباد میں دھرنا دیا اور ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کئے۔ ساتھ ہی ساتھ، پاکستان عوامی تحریک نے بھی موجودہ نظام کے خلاف احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔

انقلاب اور آزادی کو حکمرانوں کے استعفیٰ اور سزا سے منسوب کیا گیا۔

لیکن، آگے چل کر، ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد کا دھرنا ختم کر دیا اور عمران خان نے سال کے آخر میں سانحہ پشاور کے بعد ملک میں سلامتی صورتحال کے تناظر میں، اپنا دھرنا ختم کرنے اور مذاکرات کے ذریعے اپنے تحفظات کو دور کرنے کا اعلان کیا۔

اور پھر، حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے۔ اس دوران شیخ رشید، سیاسی جرگے اور جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق نے بھی اپنا کردار ادا کیا، جبکہ مولانا فضل الرحمٰن صورتحال پر تنقید کرتے رہے اور بعد میں ایک خودکش حملے میں بال بال بچے۔

اس تمام عرصے میں، درجن بھر پارلیمانی جماعتیں جمہوریت کی بقا کے لئے نواز شریف کی حکومت کے ساتھ کھڑی رہیں، جیسے آصف علی زرداری نے بھی کہا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی؛ لیکن، اُنھوں نے جمہوریت کی خاطر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

اسی دوران، پاکستان کا قومی بجٹ پیش ہوا۔ پھر، لندن میں الطاف حسین کے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہونے کی خبریں آئیں، جس پر کراچی کی صورتحال کشیدہ ہوگئی۔

بعد مین، بلاول بھٹو زرداری کی ایم کیو ایم کے قائد پر تنقید پر متحدہ پھر سندھ حکومت سے الگ ہوگئی۔

اس سے قبل، کراچی ہی میں ہونے والے ایک اور واقعے نے حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف متحرک کردیا اور وہ واقعہ تھا کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ۔

ڈالر کی قدر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم ہوئی۔

پھر ملالہ نے امن کا نوبل انعام حاصل کیا تو ملک میں خوشی منائی گئی۔ لیکن، ملک میں امن و امان کی عدم موجودگی پر عوام سراپا احتجاج بنے رہے۔

سال کے آخر میں، سانحہٴپشاور کے بعد، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف سخت فیصلے کئے ؛اور، ملک میں ایک عرصے سے عائد سزائے موت پر سے پابندی ختم کردی گئی اور دہشت گردوں کو پھانسیاں دی جانے لگیں۔ اور، قوم سے خطاب میں، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا؛ اور ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔

اور یوں، دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور امن و امان کے مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے، آپریشن ’ضرب عضب‘ کا دائرہ پورے ملک میں پھیلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG