یمن کے دارالحکومت صنعا میں عینی شاہدین نے ایرانی سفارتخانے پر سعودی اتحاد کی جانب سے فضائی بمباری کے دعوے کی تصدیق نہیں کی۔
ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ سعودی عرب نے جان بوجھ کر شام میں اس کے سفارتخانے کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم، دارالحکومت صنعا میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کی عمارت کو پہنچنے والے کسی نقصان کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ بقول عینی شاہدین، بمباری سفارتخانے سے 700 میٹر کے فاصلے پر واقع پبلک اسکوائر پر ہوئی جس کے نتیجے میں چند پتھر سفارتخانے کے احاطے میں جاگرے تھے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان، جبار انصاری کا کہنا تھا کہ صنعا میں یہ مبینہ فضائی حملہ ان تمام بین الاقوامی سمجھوتوں کی خلاف ورزی ہے جس میں غیر ملکی سفارتخانوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
ریاستی ٹیلی ویژن کے مطابق، ترجمان نے عمارت کو پہنچنے والے نقصان اور عملے کے زخمی ہونے کی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد کی۔ تاہم، انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون زخمی ہوا اور کتنی تباہی ہوئی۔
سعودی عرب یمن میں ایرانی حمایت یافتہ شعیہ حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مصروف سرکاری فورسز کی حمایت میں فضائی حملوں کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب نے ایرانی الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایرانی کابینہ نے جمعرات کو سعودی عرب سے تمام درآمدات پر پابندی بھی عائد کر دی ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق، ایران سالانہ 60 ملین ڈالر مالیت کی سعودی مصنوعات درآمد کرتا ہے، جن میں سے اکثر پیکنگ مواد اور ٹیکسٹائل ہوتی ہیں۔ تہران نے سعودی عرب کے ساتھ سالانہ 130 ملین ڈالر مالیت کی برآمداتی تجارت کے بارے میں کچھ نہیں کہا، جن میں سے بیشتر اسٹیل، سیمنٹ اور زرعی پیداوار ہوتی ہیں۔
ایران نے اپنے شہریوں پر سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ کے دورے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
یہ صورتحال گزشتہ ہفتے اس وقت پیش آئی جب سعودی عرب نےتہران میں اپنے سفارتخانے پر پرتشدد مظاہرے کے بعد ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ مظاہرین شعیہ عالم نمر النمر کی پھانسی پر مشتعل تھے، جو سعودی بادشاہت پر تنقید کرتے رہے۔
کئی عرب ممالک نے بھی سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر ایران سے سفارتی تعلقات توڑ دئے ہیں؛ اور بعض دیگر اقوام نے ایران کے ساتھ تعلقات کی سطح گھٹا دی ہے۔