واشنگٹن —
یمنی عہدے داروں نے بتایا ہے کہ دارالحکومت صنعاٴمیں خود کش کار بم حملے اور بعدازاں وزارتِ دفاع کی عمارت کے قریب واقع ایک فوجی اسپتال پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 52 افراد ہلاک ہوئے۔
سپریم سکیورٹی کمیشن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کے اِس حملے میں 167 افراد زخمی ہوئے، جو اِس برس اب تک ہونے والا سب سے ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں شہریوں کے علاوہ فوجی اور اسپتال کا طبی عملہ شامل ہے۔
یمن کی صبا نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک شدگان میں دو جرمن ڈاکٹر، دو ویتنامی اور ایک یمن کے ڈاکٹر کے علاوہ فلپینز اور بھارت سے ایک ایک نرس شامل ہیں۔
فوری طور پر کسی نے اس واقع کے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم، صنعاٴمیں قائم سیاسی تجزیہ کار، عبدالغنی الاریانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حملے کی نوعیت سے یہ قوی گمان گزرتا ہے کہ یہ القاعدہ کی ہی کارستانی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حملے کی غرض و غائیت واضح ہے۔
الاریانی کے بقول، خاص مقصد یہی ہے کہ معاملے کو خاصی اہمیت ملے گی اور بین الاقوامی میڈیا اسے خوب اچھالے گا؛ اور اِسی مقصد کے لیے ہی تو وہ لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں، نہ صرف یمن میں بلکہ دنیا بھر میں۔
الاریانی نے کہا کہ یہ اندر کے ہی کسی فرد کی کارستانی معلوم دیتی ہے، کیونکہ سابق صدر علی عبد اللہ صالح نے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے، اور یوں وہ اُن کی افواج میں گھس بیٹھے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، یہ تو سبھی کو پتا ہے، اور میں نے بھی اس بارے میں کئی بار گذارش کی ہے کہ مسٹر صالح نے القاعدہ کی سرپرستی کی اور امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے اُنھیں تیار کیا۔
اہل کاروں کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کو عمارت کے ایک حصے سے ٹکرا دیا، اور پھر پیدل حملہ آوروں نے خودکار رائفلوں اور دوسرے ہتھیاروں سے گولیاں چلانا شروع کردیں۔
بعدازاں، یمنی صدر، عبد ربو منصور ہادی نے اسپتال کے احاطے کا دورہ کیا، جہاں وہ اعلیٰ فوجی حکام سے ملے اور حملے کی تفتیش کے لیے احکامات جاری کیے۔
رائٹرز خبر رساں ادارے نے خبر دی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں مسٹر ہادی کا ایک رشتہ دار بھی شامل تھا۔
واشنگٹن میں، نیشنل سکیورٹی کونسل کی ایک خاتون ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ نے اِس کارروائی کی مذمت کی ہے اور کونسل نے اس ظالمابہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ دل کی گہرائی سے تعزیت کی۔
سپریم سکیورٹی کمیشن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کے اِس حملے میں 167 افراد زخمی ہوئے، جو اِس برس اب تک ہونے والا سب سے ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں شہریوں کے علاوہ فوجی اور اسپتال کا طبی عملہ شامل ہے۔
یمن کی صبا نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک شدگان میں دو جرمن ڈاکٹر، دو ویتنامی اور ایک یمن کے ڈاکٹر کے علاوہ فلپینز اور بھارت سے ایک ایک نرس شامل ہیں۔
فوری طور پر کسی نے اس واقع کے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم، صنعاٴمیں قائم سیاسی تجزیہ کار، عبدالغنی الاریانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حملے کی نوعیت سے یہ قوی گمان گزرتا ہے کہ یہ القاعدہ کی ہی کارستانی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حملے کی غرض و غائیت واضح ہے۔
الاریانی کے بقول، خاص مقصد یہی ہے کہ معاملے کو خاصی اہمیت ملے گی اور بین الاقوامی میڈیا اسے خوب اچھالے گا؛ اور اِسی مقصد کے لیے ہی تو وہ لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں، نہ صرف یمن میں بلکہ دنیا بھر میں۔
الاریانی نے کہا کہ یہ اندر کے ہی کسی فرد کی کارستانی معلوم دیتی ہے، کیونکہ سابق صدر علی عبد اللہ صالح نے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے، اور یوں وہ اُن کی افواج میں گھس بیٹھے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، یہ تو سبھی کو پتا ہے، اور میں نے بھی اس بارے میں کئی بار گذارش کی ہے کہ مسٹر صالح نے القاعدہ کی سرپرستی کی اور امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے اُنھیں تیار کیا۔
اہل کاروں کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کو عمارت کے ایک حصے سے ٹکرا دیا، اور پھر پیدل حملہ آوروں نے خودکار رائفلوں اور دوسرے ہتھیاروں سے گولیاں چلانا شروع کردیں۔
بعدازاں، یمنی صدر، عبد ربو منصور ہادی نے اسپتال کے احاطے کا دورہ کیا، جہاں وہ اعلیٰ فوجی حکام سے ملے اور حملے کی تفتیش کے لیے احکامات جاری کیے۔
رائٹرز خبر رساں ادارے نے خبر دی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں مسٹر ہادی کا ایک رشتہ دار بھی شامل تھا۔
واشنگٹن میں، نیشنل سکیورٹی کونسل کی ایک خاتون ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ نے اِس کارروائی کی مذمت کی ہے اور کونسل نے اس ظالمابہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ دل کی گہرائی سے تعزیت کی۔