امدادی اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ یمن انسانی بحران کے دہانے پر ہے جہاں تقریباً پانچ لاکھ بچوں کو خوراک کی کمی اور اسپتالوں کو بنیادی ادویہ کی کمی کا سامنا ہے۔
اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ یمن کی خانہ جنگی میں شدت آسکتی ہے۔
سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کی طرف سے حوثی باغیوں کو پسپا کرنے کی کوشش جاری ہیں جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
یمن کے دارالحکومت صنعا میں بم سے تباہ حال عمارتوں کے درمیان واقع السبین اسپتال بچوں اور حاملہ خواتین کے لئے زندگی کا واحد سہارا ہے لیکن یہ بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔
بچوں کے لیے ایک بین الاقوامی امدادی ادارہ 'سیوو دی چلڈرن' اس اسپتال کو امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس ادارے کے ترجمان مارک کیی حال ہی میں صنعا سے واپس آئے ہیں۔ انھوں نے اردن سے وائس آف امریکہ سے سکائپ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "بحران سے پہلے یہ (اسپتال) تقریباً 300,000 کی آبادی کے لئے تھا لیکن اس بحران کے بعد یہ تعداد تقریباً تیس لاکھ تک جا پہنچی ہے اور تمام صوبہ خصوصی طبی سہولتوں کے لئے اس پر انحصار کررہا ہے"۔
اسپتال کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اسپتال کو سکون آور ادویہ، انتقال خون کے ٹیسٹ اور دوسری ضروری ادوایات کی کمی کا سامنا ہے۔
اس کے قریب ہی واقع ال الفی کلینک میں ڈاکٹروں نے ایک پریشان کن رجحان دیکھا ہے کہ خوارک کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کی ایک ڈاکٹر نجیبہ علی الغسال نے کہا کہ صورت حال انتہائی نازک ہے۔
"ہمارے بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان بچوں کو اس طرح کی غذائی قلت سے دو چار نہ ہونے دیں اور اس خوف اور پریشانی کو جسے ہم دیکھ رہے ہیں"۔
امدادی ادارے بنیادی ضروریات زندگی کی شدید قلت کا الزام سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی طرف سے حوثیوں کے زیر قبضہ حدیدا بندرگاہ کے محاصرے اور اس پر کی جانے والی بمباری کو قرار دیتے ہیں۔ اسپتال کو فراہم کیا جانے والا ضروری سامان اسی راستے سے آتا تھا۔
سیوو دی چلڈرن کے ترجمان مارک کی نے کہا کہ "ہمیں یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ انتہائی ضروری سامان کی فراہمی بلا کسی رکاوٹ کے جاری رہے، دوسری صورت میں مزید بچوں اور حاملہ خواتین کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی"۔
امدادی اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ یمن میں 15 لاکھ افراد بنیادی صحت کی سہولتوں کی کمی کا شکار ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ اس تنازع کا مہلک ترین نتیجہ ہو سکتا ہے۔