یمن کی حکومت نے ملک میں امن کے لیے ایران کی طرف سے اقوام متحدہ میں پیش کردہ چار نکاتی امن منصوبہ مسترد کر دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" کے مطابق یہ استرداد یمن حکومت کے ترجمان کی طرف سے سامنے آیا ہے۔
سعودی عرب اور اس کے سنی اتحادی عرب ممالک نے یمن میں ایران کے اتحادی شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں تاکہ باغیوں کو پورے ملک پر قبضہ کرنے سے روکا جا سکے۔
گو کہ عرب دنیا کے اس پسماندہ ترین ملک میں لڑائی اب مختلف قبائل کے درمیان بھی چھڑ چکی ہے لیکن باور یہی کیا جا رہا ہے کہ یہ دراصل تیل کی دولت سے مالا مال سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران کے درمیان 'درپردہ' جنگ ہے۔
ایران کے منصوبے میں فوری طور پر جنگ بندی، تمام غیر ملکی فوجی کارروائیوں کو روکنے، انسانی ہمدری کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے اور وسیع پیمانے پر قومی مذاکرات بحال کر کے "تمام فریقین کی شمولیت سے متحدہ حکومت بنانے" کا کہا گیا تھا۔
یمن حکومت کے ترجمان راجیہ بادی نے قطر کے دارالحکومت دوحا سے رائٹرز کو بتایا کہ " ہم ایران کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ اقدام صرف ایک سیاسی چال ہے۔"
یمن کی حکومت اور اس کے مرکزی اتحادی سعودی عرب نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خطے میں بالادستی حاصل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں یمن میں مداخلت کر رہا ہے۔ ایران ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
ایران نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا ہے کہ وہ شیعہ حوثی باغیوں کو عسکری امداد فراہم کر رہا ہے۔